علامہ اقبالؒ اور وادیٔ جنت نظیر کشمیر
اس امر میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ حکیم الامت علامہ اقبالؒ کو کشمیر سے جذباتی ، روحانی اور ایسی بے پناہ محبت تھی کہ اُس کا اظہار اُنہوں نے اپنے کلام ، خطوط اور عمل سے کئی مواقع پر کیا۔ علامہ اقبالؒ کے بزرگوں کا تعلق کشمیر سے تھا۔ اُنہیں اِس پر ناز تھا کہ اُن کی شریانوں میں دوڑنے والا لہوکشمیر کے شفق فام چناروں کی طرح سرخ ہے۔ ایک جگہ وہ فرماتے ہیں کہ
تنم گلے زخیابانِ جنت کشمیر
دلم ز خاکِ حجاز و نواز شیراز است
یعنی کہ ’’میرا بدن گلستان کشمیر کا ایک پھول ہے اور میرا دل ارض حجاز اور میری صدا شیراز سے ہے‘‘۔ کشمیر سے جدی تعلق رکھنے کے باوجود اُنہیں اس امر کا بھی گہرا احساس تھا کہ وہ اِس وادیٔ جنت نظیر کا مشاہدہ بچشم خود نہیں کرسکے۔ یہ احساسِ محرومی اشعار کے قالب میں یوں ڈھل کر سامنے آیا
کشمیر کا چمن جو مجھے دلپذیر ہے
اِس باغ جاں فزا کا یہ بلبل اسیر ہے
ورثے میں ہم کو آئی ہے آدم کی جائیداد
جو ہے وطن ہمارا وہ جنت نظیر ہے
موتی عدن سے، لعل ہوا یمن سے دور
یا نافہ غزال ہوا ختن سے دور
ہندوستان میں آئے ہیں کشمیر چھوڑ کر
بلبل نے آشیانہ بنایا چمن سے دُور
سیالکوٹ سے جب وہ لاہور پہنچے تو یہاں اُنہوں نے کشمیری مسلمانوں کی قائم کردہ تنظیم ’’انجمن کشمیری مسلمانان‘‘ میں شمولیت کی اور اس حد تک اس کے سرگرم کارکن بنے کہ اُنہیں اس انجمن کے ذمہ داران نے انجمن کا سیکرٹری جنرل بنا دیا۔ اقبال کشمیر، پنجاب اور ہندوستان بھر میں کشمیری مسلمانوں کی حالتِ زار پر کڑھتے اوراسے بہتر بنانے کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔ اُن کا عہد شباب ہی میں یہ مطالبہ تھا کہ کشمیریوں کو ریاست کے ڈوگرہ حکمران اپنے گھروں کو واپس جانے دیں۔ اُنہیں وہاں آباد ہونے اور اپنی امداد کے خود مالک ہونے کا حق دیاجائے۔ اُن کی کشمیر سے والہانہ محبت اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ ایک موقع پر اُنہوں نے فرمایا
سامنے ایسے ، گلستاں کے کبھی گھر نکلے
حبیب خلوت سے ، سرطور نہ باہر نکلے
ہے جو ہر لحظہ تجلی گر مولائے خلیل
عرش و کشمیر کے اعداد برابر نکلے
وہ 1921ء میں کشمیر گئے ۔ مہاراجہ پرتاب سنگھ ان کی میزبانی کے خواہش مند تھے لیکن اُنہوں نے مہاراجہ کا مہمان بننا قبول نہیں کیا۔ وہ اس وادی جنت نظیر کے مختلف شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں گھومتے پھرتے رہے۔ وادی کے قدرتی حسن سے مسحور ہوتے رہے اور انہوں نے اس دوران اپنی آنکھوں سے کشمیری مسلمانوں کے ناگفتہ بہ حالات کا جائزہ لیا ۔
واضح رہے کہ مقبوضہ وادی جموں کشمیر میں آزادی کی تحریک 1931ء میں شروع ہو چکی تھی۔ اُنہوں نے اپنے کلام میں کشمیری مسلمانوں کو محکومی اور مظلومی کی زنجیریں توڑنے کا پیغام دیا اور اُن کے دل کے آتش کدے میں آزادی اور حریت کے انگاروں کو اپنے گرم جذبات کی سانسوں سے بھڑکایا۔ اقبال کی ایک مشہور کتاب جاوید نامہ ہے ۔ دراصل یہ پوری کتاب کشمیری مسلمانوں کو غلامی کی زنجیریں توڑ دینے کا پیغام دیتی ہے۔ علامہ نے اس طویل مثنوی میں کشمیر پر ایک پورا باب رقم کیا ہے وہ عالمی تخیلات میں کشمیر کے عظیم صوفیاء اور بزرگ شاعروں سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ اپنی اس تخیلاتی اور تصوراتی ملاقات کے دوران اقبال کشمیر کے مشہور بزرگ میر سید علی ہمدانی المعروف حضرت شاہ ہمدانؒ سے بھی ملاقات کرتے ہیں اور اُن کے حضور اپنی یہ شکایت رکھتے ہیں کہ ’’آپ کے ماننے والوں کو آج ستم کی تیغ کچل رہی ہے۔ آپ نظرِ کرم فرمائیے ہماری شکایت پر توجہ دیجئے ، ہمیں بتائیے آپ کی مدد کب پہنچے گی، اس مثنوی میں وہ فارسی زبان کے ایک عظیم صوفی شاعر غنی کاشمیری سے بھی مکالمہ کرتے ہیں۔ یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ اقبال کے قلب و قلم میں کشمیر رچا بسا تھا ۔ 1939ء میں علامہ اقبال وفات پا گئے ۔ اس عالمِ فانی سے دنیائے بقا کے سفر پر روانہ ہونے سے قبل بھی وہ مظلوم ، مجبور اور محکوم کشمیریوں کے حوصلوں کو آواز دیتے رہے۔ انہوں نے انہی دنوں یہ دعا کی تھی کہ ’’توڑ اس دست ز جفا کیش کو یارب …جس نے روحِ آزادیـ کشمیر کو پامال کیا‘‘ علامہ کو دُکھ تھا کہ انگریزوں نے مہاراجہ گلاب سنگھ ڈوگرا سے 75 لاکھ نک شاہی سکوں کا تاوان وصول کرکے پوری وادی اس جابر اور سفاک حکمران کے حوالے کردی۔ علامہ اقبال نے1931ء میں مظلوم کشمیریوں کی جدوجہد کو منزل آشنا کرنے کے لئے آل انڈیا کشمیر کمیٹی بھی بنائی۔ بعدازاں انہیں اس کمیٹی کا صدر منتخب کیا گیا لیکن بعض مصروفیات کی وجہ سے وہ آل انڈیا کشمیر کے منصب صدارت سے مستعفی ہو گئے۔ لیکن ایک فعال کارکن کی حیثیت سے اس کے تمام اجلاسوں میں باقاعدگی سے شامل ہوتے رہے۔
جاوید نامہ کے علاوہ علامہ اقبال نے اپنی کتاب’’ ارمغان حجاز میں ‘‘ملا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض کے عنوان سے کئی نظمیں لکھیں۔ پہلی نظم میں وہ لکھتے ہیں
پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب
مرغانِ سحر تیری فضائوں میں ہیں بے تاب
تیسری نظم میں وہ کشمیراور کشمیریوں کی حالتِ زار کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچتے ہیں
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر!
کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر!
سینۂ افلاک سے اٹھتی ہے آہِ سوز ناک
مردِ حق ہوتا ہے جب مرعوبِ سلطا و امیر
کہہ رہا ہے داستان بیدردیٔ ایام کی
کوہ کے دامن میں وہ غم خانہ دہقان پیر
آہ یہ قومِ نجیب و چرب دست و تر دماغ!
ہے کہاں روزِ مکافات؟ اے خدائے دیر گیر!
اقبال کو یقینِ کامل تھا کہ کشمیر میں آزادی کی جو تحریک شروع ہوئی ہے اِس کو دنیا کی کوئی طاقت دبا نہیں سکتی۔ آج بھارت کی ساڑھے 8 لاکھ افواج کے کشمیریوں کی تحریک حریت کی آگ کو سرد کرنے میں ناکام رہی۔اسی تناظر میں علامہ فرماتے ہیں
جس خاک کے خمیر میں ہے آتش چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند
1990ء سے کشمیر میں گورنر راج نافذ ہے۔ ایک لاکھ حریت پسندوں کی مقبوضہ وادی کے مختلف شہروں اور قصبوںکے قبرستانوں میں زندہ قبریں برہان وانی اور اس کے پیروکاروں کو اقبال کے الفاظ میں یہ پیغام دے رہی ہیں کہ
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
کمالِ صدق و مروّت ہے زندگی ان کی
معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں
قلندرانہ ادائیں، سکندرانہ جلال
یہ امتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں!
خودی سے مردِ خود آگاہ کا جمال و جلال
کہ یہ کتاب ہے، باقی تمام تفسیریں
شکوہِ عید کا منکر نہیں ہوں میں لیکن
قبولِ حق ہیں فقط مردِ حُر کی تکبیریں