انسداد پولیو مہم میں زبردستی …
کراچی کی 188یونین کونسلوں میں انسداد پولیو کی مہم کے اعدادوشمار کی تصدیق کے لئے گھروں کا سروے شروع کر دیا گیا ہے ۔یہ کام بھی پولیو مہم کی طرح گھر گھر جا کر کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق پولیو کے خاتمے کے سلسلے میں پہلے کیے گئے سروے میں ٹیم کے کارکنوں کی جانب سے حاصل کردہ اعداد و شمار کی جانچ پڑتال شروع ہو گئی۔محکمہ صحت کے افسران کا کہنا ہے کہ یہ تصدیق مرحلہ وار کی جا رہی ہے۔پہلے مرحلہ میں کراچی کے 6 اضلاع کی 188یونین کونسلوں کو رکھا گیا ہے جِن میں حسّاس ترین علاقے بھی شامل ہیں۔اِس مہم کے عملے کی حفاظت کے لئے پولیس بھی فراہم کی گئی ہے۔یہ عمل مکمل ہونے کے بعد صوبے کے دیگر 23اضلاع میں تصدیق کی جائے گی ۔کوشش ہو گی کہ ر واں سال کی تیسری پولیو مہم شروع ہونے سے قبل یہ عمل مکمل کر لیا جائے۔حکام کا کہنا ہے کہ تصدیق کے عمل میں سپروائزر، پولیو ٹیم کے کارکنان کے ساتھ اُن کی مقرر یونین کونسل کے علاقوں میں گھر گھر جا کر شادی شدہ افراد اور اُن کے بچوں کی تعداد، نام اور عمریں معلوم کررہے ہیں۔اِس تصدیقی عمل میں بھی ٹیم کو والدین کے عدم تعاون کا سامنا ہے۔کئی گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں والدین عملے کو درست معلومات نہیں دیتے ۔اِس کے حل کے لئے گزشتہ مہم کے ریکارڈ کو موجودہ حاصل کردہ معلومات سے موازنہ کیا جائے گا۔حکام نے ٹیم کے عملہ کو پابند کیا ہے کہ وہ سپروائزر کے ہمراہ اُن تمام گھروں میں جائیںجن کا انکاری کیس درج تھا تاکہ وہ خود انکار کی وجہ پوچھیں یا کوئی شکایت ہو تو بتائی جائے۔حکام نے بتایا کہ اُن کا عملہ اپنا کام ایمانداری سے کرتا ہے اور اس مہم پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ پولیو مہم کے بارے میں ہمیشہ ہی شکایات او ر شبہات رہے ہیں۔اِن شبہات کی وجہ یہ ’’حقیقت ‘‘ہے کہ پولیو مہم حکومتِ پاکستان کی نہیں بلکہ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے ’ یونیسیف‘ کی طرف سے دی گئی امداد اور ’’ حکم‘‘ کے تحت چلائی جاتی ہے۔اس کی تمام ادویات بمع عملہ تنخواہیں اسی مد سے دی جاتی ہیں۔پھر اِس مہم کو ’’ انسداد ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ انسداد کا مطلب ہے روکناکِس کو روکنا؟ اِس ’’ وبا‘‘ کو روکنا جس کے پھیلنے کا اندیشہ ہو۔عوام کی اکثریت جدید علوم سے نابلد ہے لیکن ہر دوسرے تیسرے مہینے اِس ’’ انسداد‘‘ نے انہیں بھی چوکنا کر دیا ہے۔’’ انسداد‘‘ ’’وبا‘‘ کا ہوتا ہے جو ایک سے دوسرے کو لگتی ہے ۔مثلاََ برسات میں ہیضے کی وبا، اسے عوامی زبان میں چھوت کی بیماری کہتے ہیں۔جہاں تک پولیو کا تعلق ہے تو …یہ بیماری وبا نہیں ہے۔جب وبا ہی نہیں تو انسداد کیسا؟۔کیاوفاقی یا صوبائی حکومتوں کی طرف سے کسی بیماری یاوبا کے انسداد کے لئے کبھی اِس پائے کی مستقل مہم چلائی ؟ … کبھی بھی نہیں۔ بچوں کیلئے صحت وصفائی کیا کراچی میں سرکاری اسپتالوں کے زچہ بچہ وارڈوں کی حالت ِ زار پر کوئی توجہ دی گئی ؟… بچوں کا ایک عالمگیر مسئلہ اُن کی خوراک ہے۔کیا اِس کے حل کے لئے کچھ کیا گیا؟یہ تو طے ہے کہ یہ مہم ’’ حکومتی‘‘نہیںہے۔اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’ جو‘‘ اِس مد میں لاکھوں کروڑوں دے رہے ہیں انہیں پاکستان میں صرف ’’ پولیو‘‘ نظر آتا ہے؟ اگر وہ بچوں کی ’’ صحت ‘‘ کے لئے فکر مند ہیں تو صحت میں اور عوامل بھی شامل ہیں، جن میں اہم ترین ’’ خوراک‘‘ ہے۔گھر گھر جا کر معلومات حاصل کرنا اور اعدادوشمار جمع کرنا تو ہو رہا ہے۔ جب 5 سال سے کم عمر بچوں کا ڈیٹا جمع ہو جائے تو مقامی کونسلر کے ذریعے اِن بچوں کو روزانہ دودھ دیا جائے تو پولیو مہم سے کہیں کم خرچ آئے گا اور نئی نسل کی صحت بہتر ہو گی، قوتِ مدافعت بڑھے گی اور صرف پولیو نہیں ، ہر طرح کی بیماری کا مقابلہ کرنے کی طاقت آئے گی۔ جیسا کہ صدر ایوب خاں کے دور میں دیا جاتاتھا اس دور میں توگھی بھی دیاجاتا تھا مگر… ہمیںجو ’’ حکم ‘‘ دیا جا رہا ہے شاید اس سے روگردانی ممکن نہیں۔پھر یہ جو پولیو ٹیمیں گھر گھر جاتی ہیں تو والدین کے انکار کی صورت میں یہ اُن پر دھونس ڈالتے ، دھمکیاں دیتے ہیں۔یہاں تک کہ والدین کو تھانے میں بھی بند کرنے کی اطلاعات ملی ہیں۔ خاکسار کے گھر بھی ماضی قریب میں ایسی ٹیم آئی باتوں باتوں میں اس مہم سے متعلق شبہات کا ذکر چل نکلا جس پر عملہ کے ایک صاحب نے ’’ پولیو مہم اور علماء کے فتویٰ جات (چوتھا ایڈیشن)‘‘ نامی کتابچہ پڑھنے کو دیا۔اِس کے صفحہ نمبر 47پر فتویٰ نمبر 36 کا تیسرا پیرا گراف قابلِ غور ہے: ’’ …لیکن یہ بات مد نظر رہے کہ موجودہ صورتِ حال میں بہت سے لوگوں کو پولیو ویکسین پر مختلف قسم کے خدشات ہیںجن کے ثبوت پر اگرچہ ان کے پاس کوئی قطعی دلیل نہیں لیکن مختلف امور مل کر عوام کے خدشات کا باعث بنتے ہیں۔ لوگوں کے خدشات کو رفع کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ معروف لیبارٹریوں کے ذریعے سے دوائوں کے ٹیسٹ کروا کے عوام میں پھیلے شکوک و شبہات کو دور کرے۔جتنا ان پولیو ٹیموں کی حفاظت پر خرچ ہوتا ہے اس کا نصف بھی اگر معیاری لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کروا کے تشہیر کرنے پر صرف ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ عوام اس مہم میں شریک نہ ہوں۔ اس لئے جب تک معقول و معتبر ذرائع سے عوام کے ان خدشات کو دور نہیں کیا جاتا اور کوئی پولیو ویکسین نہیں پلاتا تو اس پر جبر کرنا اور پولیس اہلکاروں کے ذریعے ایسے گھرانوں کو ڈرانا دھمکاناقطعاََ جائز نہیں…‘‘۔ فتویٰ کا مطلب کسی کام کو ’’ اسلامائز‘‘ کرنا ہے۔اِس فتویٰ میں واضح طور پر کہا گیا ہے زبردستی’’ جائز‘‘ نہیں۔کیا خود حکومتی اہلکاروں نے یہ فتویٰ پڑھا ہے؟ گھر گھر جانے والا عملہ تو محض اپنے فرائض انجام دے رہا ہے، اصل ذمہ دار حکومتی افسران ہیں۔جن کے حکم پرعملہ بھی پولیس کے ذریعے دھونس جماتا ہے۔یہ افسران ’’ یہ ناجائز کام‘‘ خود کس کے حکم پر کرتے ہیں؟ ایسی کیا مجبوری ہے؟ ایسا تو نہیں کہ اس مہم کے ذریعے اِن کو بھی ’’ کوئی مفاد‘‘ حاصل ہو رہا ہے؟ہماری حکامِ بالا سے گزارش ہے کہ وہ عوام میں پھیلے گئے مندرجہ ذیل خدشات دور کریں:اول یہ کہ ویکسین کس ملک سے تیار ہو کر آ تی ہے؟ دوسرا یہ کہ ان کی لیبارٹری کے معیار کی سند کیا ہے؟ تیسرا یہ کہ کیا اِن ادویات پر تاریخ معیاد درج ہے؟چوتھا یہ کہ کیا کبھی پاکستانی مستند لیبارٹریوں سے ان کا تجزیہ کروایا گیا ہے؟ پانچواں یہ کہ ہر وبا کے پھیلنے کے خدشہ سے پہلے ویکسین پلائی جانی چاہیے۔پورے ملک میں پولیو کے قطرے ہر دوسرے تیسرے مہینے کیوں پلائے جاتے ہیں؟آخری یہ کہ امداد دینے والوں کو ہمارے ملک میں دوسری بیماریاں کیوں نظر نہیں آتیں؟پولیو مہم اور علماء کے فتویٰ جات نامی کتابچے کے آخر میں سوال جواب درج ہیں، آخر صفحہ کے آخری سوال کے جواب میں مذکور ہے: ــ’’ تمام مسلم ممالک میں جِن میں سعودی عرب، انڈونیشیا،مصراور یمن بھی شامل ہیں۔وہاں یہی ویکسین استعمال کر کے پولیو کا خاتمہ کیا گیا ہے۔‘‘خاکسار کی تحقیق کے مطابق محض یہ بات کافی نہیں بلکہ وہاں کی حکومتوں نے بچوں کی خوراک اورعمومی صحت پر توجہ دی جس کی وجہ سے اُن کی قوتِ مدافعت میں اضافہ ہوا۔