یہ کیسی جمہوریت ہے.؟
پچھلے دِنوں مُلک میں ہو نے والے سینیٹ انتخابات میں ہار س ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کے بعد چیئر مین سینیٹ کے چناؤ کے لئے بھی مُلک کی دوبڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پی پی پی کے درمیان گھمسان کا رن جاری ہے دونوں ہی جماعتیں تمام آئینی قانونی ، سیاسی سماجی اور اخلاقی حدود کو دیدہ دلیری سے اپنے پیروں تلے روندتے ہوئے ہارس ٹریڈنگ اور فلورکراسنگ کے عمل میںمصروف ہیں۔سوچیں آج جب یہ ایسا کررہی ہیں تو کیا اِن سے آئندہ کسی قا نونی اور آئینی ، سماجی سیاسی اور اخلاقی بہتری کے اچھے عمل کی توقع رکھی جاسکتی ہے؟ کیو ںکہ آج جب سینیٹ کی بنیاد ہی کرپشن ، ہا رس ٹریڈنگ اور فلورکراسنگ کا غلط طریقہ استعمال کرکے رکھی جا رہی ہے تواِس طرح ساری عمارت ہی کمزور اور غلط تعمیر ہو گی، جس کے سا ئے تلے کرپٹ اور کرپشن کے دلدادہ افراد مُلک اور قوم کی بہتری کے لئے کیا ؟ اور کیسی قانون سازی کریں گے؟گے؟بڑے افسوس کی بات ہے کہ مُلک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ہارس ٹریڈنگ اور فلورکراسنگ کے گھناونے فعل کو بھی جمہوری روایات کا خا ص حصہ سمجھتی ہیں اور اپنے مفادات کے حصول کے لئے ہر نا جائز اور غیر آئینی اور غیر قا نونی عمل کو بھی سینہ چوڑا کرکے رائٹ اور درست کہہ رہی ہیں ۔ہارس ٹریڈنگ اور فلورکراسنگ سے ن لیگ اور پی پی پی دونوں ہی اپنا چیئر مین سینیٹ لا نے کے لئے جا ئز قرار دے رہی ہیں مگر درحقیقت اِن کا یہی عمل آئندہ اِن کے گلے کا طوق ثابت ہوگا کیو ں کہ ہا رس ٹریڈنگ اور جبر اََ فلور کراسنگ سے متعلق اعلیٰ عدالتوں نے نوٹس لے لیا ہے اور تحقیقات کے دروازے کھول دیئے ہیں ہر باشعور پاکستا نی ووٹر پریشان ہے اور وہ یہ بھی سوچ رہاہے کہ یہ کیسی جمہوریت ہے؟ کہ جس میں اشرافیہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے تو کمر بستہ ہے جبکہ عوام الناس جمہوری ثمرات سے محروم ہیں، کیا اِسی کو کہنے والے جمہور، جمہوریت اور جمہوری عمل کہتے ہیں؟ جس میں عوام الناس کے حصے میں نہ پہلے کبھی خوشیاں آئیں تھیں اور نہ آج عوام کے دامن اور حصے میں جمہوری پھل آئے ہیں۔پچھلے ستر سالوں سے تو عوام کو جمہور، جمہوریت اور جمہوری دیوی کے پنڈتوں نے بے وقوف بنا کر اپنا ہی اُلو سیدھا کیا ہے اور آتے جاتے جمہوری پجار یوں نے قومی خزا نے کو اپنے اللے تللے کے لئے دل کھول کر استعمال کیا اور کمر پر ہا تھ پونچھ کر چلتے بنے ہیں اور اِن کے اِس کرتوتِ سیاہ سے مُلک اور عوام قرضوں کے بوجھ تلے دبے تو دبتے ہی چلے گئے ۔آج سینیٹ چیئرمین کے انتخاب کے لئے جوڑ توڑ ہارس ٹریڈنگ اور فلورکراسنگ کے دلدل میں دھنسے حکمران اور سیاستدان بوروں میں روپے بھر کر اراکین سینیٹ کو خریدنے میں مصروف ہیں سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اِن کے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی ہے ؟ یہ بھی ایک سوال ہے؟ اِن سے کیا کو ئی کبھی یہ پوچھے گا یا سب ٹھیک ہے کی آواز مارکر آگے چلتا بنے گا؟ اِدھر ہارس ٹریڈنگ اور فلورکراسنگ جیسے فعلِ شنیع میں ایک دوسرے سے آگے بڑھتے اور کا میابی کے جھنڈے گاڑتے ن لیگ، پی پی پی اور پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتوں کے سربراہان و کارکنان اور حکمرانوں، سیاستدانوں اور بیوروکرٹیس کو خبردار کرتے ہوئے عالمی مالیاتی فنڈ کے ادارے آئی ایم ایف نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے جس نے وا شگاف انداز سے انکشاف کیا ہے کہ ’’پاکستان کے بجٹ اور بیرونی خسارے کو معیشت کے لئے درپیش بڑاچیلنج قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ بڑھتے خسارے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی سے معاشی استحکام کو خطرہ ہے‘‘جبکہ ہمارے کرتا دھرتاؤں کو اِس خطرے کی فکر ہی نہیں ہے یہ تو سینیٹ میں اپنا چیئر مین اور ڈپٹی چیئر مین لا نے کے لئے فکر مند ہیں ۔اَب اِس منظر اور پس منظر میں بڑے افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑرہی ہے کہ آج اداروںکو دائرے اختیار میں رہنے کی باتیںکرنے والے خود ہی اپنے اقتدار اور اختیار کے لئے آئینی اور قانونی دائرے سے باہر نکلتے جا رہے ہیں بھلا اِن بھٹکے ہوؤں کی کسی ایسی بات پر کو ئی حق و سچ ہو نے کا گمان کیو ں کر کرے گا؟ جب کہ یہ خود ہی اپنے سیا سی و ذاتی اور اقتداری مفادات کے خاطر بے لگام گھوڑے کی طرح سر پٹ دوڑے چلے جارہے ہیں ایک عام آدمی اِنہیں کیسے صادق اور امین گردا نے گا ؟تاہم اِن دِنوں ہر با شعور پاکستا نی اس نتیجے پر پہنچاہے کہ مُلک کو اِس کے22/21 کروڑغریبوں اور مزدور ں نے اِتنا نقصان نہیںپہنچایا ہے جتنا کہ گزشتہ ستر سالوں سے غریبوں ، محنت کشوں سے ووٹ لے کر مسندِ اقتدار پر قدمِ رنجافرما نے والوں اور قومی خزا نے سے اللے تللے کرنے والوں جمہور اور جمہوریت کی قدم بہ قدم مالاجپنے والوںنے مُلک کو لوٹا کھایا اور آف شور کمپنیاں بنا کر مُلک اور قوم ستیاناس کیا ہے اور اَب پھر..؟۔