آہ اعجازالحسن میر صحافت کا درخشاں ستارہ ٹوٹ گےا

زندگی موت تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہے ہرجاندارچیز نے موت کا مزہ چھکنا ہے لیکن بعض شخصےات کی موت عمر بھر یادوں کا حصہ بن جاتی ہیں انہیں شخصےا ت میں ایک اعجازالحسن تھے جنہوں نے گوجرانوالہ میں صحافت کے میدان میں اپنا نام پیداکیا وہ صرف قلمی جہاد نہیں بلکہ عملی طور پر معاشرے میں ان برائیوں کے خاتمے کے لئے نبردآزمارہتے اپنی صحافتی زندگی میں انہوں نے بہت سے نشیب وفراز دیکھے لیکن ہمیشہ ثابت قدم رہے انہوں نے جہاں دوستےاں پالیں وہیں ان کی بے باک صحافت نے دشمن بھی پیداکئے لیکن اپنے دشمنوں کے ساتھ صحافتی انصافی کو مدنظر رکھا کبھی ان کی قلم میں دوستی اوردشمنی میں تمیز نہیں رکھی تھی صحافت کی نظر میں سب کو ایک ہی نظر میں دیکھتے تھے یہی وجہ ہے ان کے دشمن اوردوست سب ان کی بے باک صحافت کی تعریف کرتے ۔میری یاداللہ ان سے تیس سال پرانی تھی جب میں کالج کے زمانے میں ان کے دفتر جایا کرتا تھا گوجرانوالہ کے سینئر صحافی ملک محمداکرم ،اعجازالحسن میر اور شاہد چشتی میرے صحافتی استادوں میں سے ہیں ان سے قلمی جہاد سیکھا جو آج بھی جاری وساری ہے ۔جب میں نے صحافت میں عملی قدم رکھا تواعجاز الحسن میر نے میری بڑی رہنمائی کی اور ایک بڑا بھائی بن کر ہر قدم پر میرا ساتھ دیا نوائے وقت کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے ان سے زیادہ مراسم پروان چڑھے اورجناب مجید نظامی سے محبت ہماری مشترکہ تھی ۔ان کا یہ سلورجوبلی صحافتی دور بہت کامیاب وکامران رہاکچھ معاملات میں میراعجاز بے بس نظر آئے جس کا انہوںنے مجھ سے کہا کہ میری مجبوری کو مدنظر رکھاجائے لیکن میں نے ان کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے کبھی کوئی گلہ شکوہ نہیں کیاکیونکہ مجبوریاں دوستی میں دڑاریں ڈالنے لگتی ہیں لیکن اگر دوست کی مجبوری خندہ پیشانی سے قبول کی جائے تو دوستی میں مزید پختگی آتی ہے کسی دوست کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا یا روٹھنادوستی نہیں مطلب پرستی ہوتی ہے جس کا کلنک ہم اپنے ماتھے پر نہیں لگانا چاہتے تھے ۔جب میں کوےت آیا تو انہیں بھی کوےت وزٹ کے لئے بلوایا اورکوےت میں وہ ایسے ہی مقبول رہے جیسے وہ گوجرانوالہ میں تھے ان کی یادیں آج بھی زندہ ہیں وہ دوبار کوےت میں آئے اوریہاں پاکستانی کمیونٹی کے علاوہ چین ،پاکستان کے سفیروں سے بھی شرف ملاقات حاصل کیا ۔اعجازالحسن میر گذشتہ دنوں میرے کوےت آنے سے دو روز بعد اس دنیا فانی سے کوچ کرگئے انااللہ الہ واناعلیہ راجعون ۔ ۔ ان کی عمر75 برس تھی اور 44 سال تک وہ عملی صحافت میں سرگرم رہے۔انہوں نے تحریک ختم نبوت کے دوران آغا شورش کاشمیری مرحوم کے ساتھ عملی زندگی میں قدم رکھا تھا اور 1969 میں نوائے وقت سے وابستہ ہونے کے بعد یحییٰ خان‘ ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاءالحق کے ادوار میں گوجرانوالہ میں جراتمندانہ صحافت کے علمبردار قرار دئیے جاتے رہے۔ بھٹو دور میں ایک سابق صوبائی وزیر کو اغواءکرکے عقوبت خانے میں ڈالنے کے عینی شاہد ہونے کے ناطے لاہور ہائی کورٹ میں گواہی دینے سے انہیں ملک گیر شہرت ملی تھی۔ جرات مندانہ صحافت اورصحافتی اقدار پر سمجھوتہ نہ کرنے کے باعث وہ اکثر زیر عتاب بھی رہے لیکن کبھی ان کے پایہ استقلال میں لغزش نہیں آئی۔روزنامہ نوائے وقت میں ان کے سیاسی تجزیے” شہ زوروں کے شہر سے“ کے عنوان سے مقبول عام تھے۔ وہ گوجرانوالہ پریس کلب کے صدر بھی رہے اور گوجرانوالہ میںہونے والے کرکٹ کے تمام انٹرنیشنل میچوں کی آرگنائزنگ کمیٹیوں میں فعال کردار ادا کیا۔ مرحوم روزنامہ دی نیشن گوجرانوالہ کے نمائندہ بابر چوہدری کے سسر ،ذےشان مےر ، نعمان مےراورروزنامہ نوائے وقت اوروقت نیوزٹی وی گوجرانوالہ کے نمائندے فرحان میر کے تایا تھے۔