توہین رسالت کا ملزم گرفتار : بادامی باغ‘ مظاہرین نے مسیحیوں کے 177 مکان‘ دکانیں جلا دیں
لاہور (اپنے نمائندے سے) وزیراعلیٰ پنجاب نے سانحہ بادامی باغ میں ناقص حکمت عملی سمیت واقعہ کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب سکیورٹی پلان نہ بنانے پر ایس ایس پی آپریشن اور ایس پی سٹی کو او ایس ڈی بنا دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی طرف سے ماڈل ٹاﺅن میں ہونے والے ہنگامی اجلاس میں سانحہ بادامی باغ میں جلاﺅ گھیراﺅ کے واقعہ میں درجنوں گھروں کو جلائے جانے اور توڑ پھوڑ سمیت لوٹ مار پر ایس ایس پی آپریشن سہیل اختر سکھیرا اور ایس پی سٹی ملتان خان کو او ایس ڈی بنا دیا گیا جبکہ ڈی ایس پی بادامی باغ سرکل خالد اور ایس ایچ او بادامی باغ حافظ ماجد کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے معطل کر دیا گیا۔ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن چودھری شفیق گجر سمیت سابق ڈی آئی جی میجر مبشر کو انکوائری کر کے جوڈیشل انکوائری کے تحت عدالت کو تمام تر ثبوت فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔ واقعہ کی انکوائری ہائیکورٹ کے جج سے کرانے کیلئے کہا گیا ہے۔ ایس پی ملتان خان کو او ایس ڈی بنائے جانے کے بعد ایس پی سٹی کا چارج ایس پی اے سی اے آئی کو دیدیا گیا جنہوں نے جائے واقعہ کا دورہ کیا اور موقع سے شواہد اکٹھے کئے۔ انہوں نے جائے واقعہ پر تعینات پولیس اہلکاروں کو بریفنگ بھی دی۔ لاہور+ اسلام آباد (اپنے نمائندے سے+ نوائے وقت رپورٹ) بادامی باغ کے قریب واقع مسیحی بستی جوزف کالونی میں توہین رسالت کے مبینہ ملزم 26 سالہ ساون مسیح کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ دوسری جانب ہزاروں مشتعل افراد نے جوزف کالونی کی مسیحی بستی میں دکانوں، مکانوں سمیت 178عمارات کو نذر آتش کر دیا گیا۔ ان میں 143ڈبل سٹوری، 16سنگل سٹوری عمارتیں، 18دکانیں شامل ہیں جبکہ مبینہ طور پر ایک چرچ کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ ضلعی انتظامیہ کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق 150گھر متاثر ہوئے ہیں۔ جانی نقصان نہیں ہوا کیونکہ بستی پہلے ہی خالی کرائی جا چکی تھی۔ گذشتہ رات گئے تھانہ بادامی باغ کے ایک علاقے کے شاہد نامی ہیئر ڈریسر کی مدعیت میں جوزف کالونی کے رہائشی ساون مسیح کے خلاف مبینہ طور پر توہین رسالت کے الزام میں مقدمہ درج ہوا۔ گذشتہ روز مذکورہ بستی کے قریب مقامی افراد اکٹھے ہونا شروع ہو گئے۔ پولیس نے حالات دیکھتے ہوئے بھی مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرکے وہاں پر بھاری نفری طلب نہ کی۔ کچھ ہی دیر بعد سینکڑوں کے بعد ہزاروں افراد اکٹھے ہو گئے اور بستی میں گھستے ہی گھریلو سامان سمیت موٹر سائیکلوں، رکشہ اور دیگر املاک کو آگ لگانا شروع کر دی۔ اس دوران پولیس کی بھاری نفری آ گئی اور لاٹھی چارج کیا، مظاہرین نے جوابی پتھراﺅ کیا یہ دو سے تین گھنٹوں تک مذکورہ علاقہ میدان جنگ کا منظر پیش کرتا رہا، درجنوں اہلکاروں سمیت تین پولیس افسر اور مقامی افراد زخمی ہو گئے۔ ریسکیو ذرائع کے مطابق مشتعل افراد نے 178مکان، دکانوں کو نقصان پہنچایا۔ صبح سے ہی مشتعل مظاہرین نے بستی کا گھیراﺅ کر لیا تھا بعض افراد گھروں کا سامان اکٹھا کرکے اس پر آتش زدہ کیمیکل پھینکتے رہے۔ دوپہر 12بجے کے بعد متعدد علماءبھی عوامی نمائندوں اور ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مدد کو پہنچے۔ انہوں نے مشتعل ہجوم کو منت سماجت سے توڑپھوڑ اور جلاﺅ گھیراﺅ سے بڑی مشکل سے روکا مگر اس وقت تک بہت نقصان ہو چکا تھا۔ بادامی باغ پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ پرچہ شاہد عمران کی مدعیت میں 295 سی کے تحت درج کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ حجام شاہد عمران نے بتایا تھا کہ ساون مسیح نامی لڑکا توہین رسالت کا مرتکب ہوا ہے۔ بادامی باغ پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او حافظ عبدالماجد نے بتایا کہ ساون مسیح کی عمر تقریباً 25 سال ہے۔ وہ اپنے مکان کے باہر بلیئرڈ ٹیبل رکھ کر کاروبار کیا کرتا تھا۔ ان کے مطابق ساون مسیح کے مکان کے سامنے ہی شاہد عمران کا کھوکھا ہے جہاں وہ حجامت بناتا ہے۔ ایس ایچ او حافظ عبدالماجد نے بتایا ’پہلے تو ہم مذہبی جماعتوں کو ساتھ لے آئے کہ جو آپ کہتے ہیں ہم پرچہ بناتے ہیں‘۔ بی بی سی کے مطابق 20 مارچ کو لوہا مارکیٹ میں انتخابات ہیں، دونوں طرف کے امیدوار کھڑے ہو رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ معاملہ سیاسی بن گیا ہو۔ صبح 10بجکر 25 سے 12بجکر 50 منٹ تک پورا علاقہ میدان جنگ بنا رہا۔ علاقے میں سخت کشیدگی پائی گئی۔ عینی شاہدین اور مسیحی برادری کے مطابق گھروں کو جلانے کیلئے پٹرول اور دیگر کیمیکلز استعمال کئے گئے۔ 26 سالہ ساون مسیح کے ایک ساتھی کی تلاش جاری ہے۔ دوپہر کو حالات جب پولیس کے کنٹرول سے باہر ہو گئے تو مقامی عوامی نمائندوں سمیت علماءکی کثیر تعداد وہاں پہنچ گئی جنہوں نے بڑی منت سماجت کے بعد مظاہرین کو منتشر کیا۔ ریسکیو آپریشن شام تک جاری رہا۔ جوزف کالونی میں 200کے قریب گھر ہیں۔ گھریلو سامان کے علاوہ 6 رکشے بھی جل کر خاکستر ہو گئے۔ پولیس نے رات گئے معاملے کی نوعیت جان کر آبادی کے مکینوں کو وہاں سے نکال دیا تھا۔کشیدہ صورتحال کو کنٹرول کرنے کیلئے بادشاہی مسجد کے خطیب مولانا عبدالخبیر آزاد دیگر علماءاور ڈی سی او لاہور نور الامین مینگل موقع پر پہنچے اور مشتعل افراد سے بات چیت کی۔کارروائی کی یقین دہانی کے بعد مشتعل مظاہرین منتشر ہوگئے۔ ڈی ایس پی خالد جاوید کے مطابق مقدمہ 295 سی کے تحت تھانہ بادامی باغ میں درج کیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق زخمی پولیس افسروں میں ایس ایس پی سہیل سکھیرا، ایس پی ملتان خان، ایس ایچ او تھانہ بادامی باغ اور متعدد ریسکیو اہلکار شامل ہیں۔ صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بادامی باغ کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے تفصیلات طلب کرلی ہیں۔ صدر زرداری نے ہدایت کی کہ شہریوں کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ اقلیتی برادری کے ارکان کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔ اپنے بیان میں صدر نے مسیحی واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ یہ واقعہ پنجاب حکومت کی ناکامی کا ثبوت ہے۔ مسیحی برادری کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے گا۔ پنجاب حکومت واقعے کی تحقیقات کرکے حملہ آوروں کو کیفرکردار تک پہنچائے۔ متاثرین کو سرکاری خرچ پر مکانات تعمیر کرکے دئیے جائیں۔ اقلیتوں کے خلاف اس قسم کے اقدامات سے پاکستان کا تصور مجروح ہوتا ہے۔ پاکستان کا چہرہ دنیا میں خراب کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ اقلیتی برادری کے ارکان کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے، متاثرہ علاقے میں امن و امان کو یقینی بنایا جائے۔ صدر زرداری نے کہا مسلم اور غیرمسلم سب کے حقوق مساوی ہیں، حکومت اقلیتوں کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنائے گی۔ وزیراعظم نے واقعے کی فوری تحقیقات کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ حکام واقعہ کی فوری رپورٹ دیں۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ بادامی باغ جیسے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔ بادامی باغ واقعہ میں ملوث 42 مبینہ مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔ ڈی آئی جی آپریشنز رائے طاہر کے مطابق مبینہ مظاہرین کے خلاف کریک ڈاﺅن جاری ہے۔ مظاہرین کو مخبروں کے ذریعے پکڑا جارہا ہے، مکمل شناخت کے بعد میڈیا کے سامنے پیش کیا جائے گا۔