صدر ٹرمپ جنگ بندی کی طرح مسئلہ کشمیر حل کرانے کا بھی کریڈٹ لیں

پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کی سمت کا تعین کرنے کے لیے مسئلہ کشمیر سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور یہ بات بھارت کو جتنی جلد سمجھ آ جائے گی اتنا ہی بہتر ہوگا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب تک بھارت مذاکرات کی میز پر آ کر اس مسئلے پر تفصیلی بات چیت نہیں کرتا تب تک اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکل سکتا۔ اس مسئلے کا دوسرا حل جنگ ہے جس کی دنیا کسی بھی صورت متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ جوہری قوت کے حامل دو ملکوں کے درمیان جنگ کا مطلب یہ ہے کہ پوری عالمی برادری کے مستقبل کے امکانات کو آگ لگا دی جائے۔ اس صورتحال میں ان دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے عالمی سٹیج کے تمام اہم عناصر کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہی بات سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری بھی بار ہا کہہ چکے ہیں۔
فرانسیسی خبررساں ادارے کو دیے گئے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں بھی بلاول بھٹو زرداری نے یہی کہا کہ جس طرح صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان بھارت کشیدگی کے دوران جنگ بندی کے لیے حوصلہ افزا کردار ادا کیا، اب انھیں چاہیے کہ وہ دونوں ممالک کو جامع اور بامعنی مذاکرات کی میز پر بھی لانے میں فعال کردار ادا کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے حوالے سے بھارتی حکومت کی ہچکچاہٹ نہ صرف معنی خیز ہے بلکہ خطے میں خطرناک مثال بھی قائم کر رہی ہے۔ پاکستان بھارت کے ساتھ دہشت گردی سمیت تمام معاملات پر بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن کشمیر کو ایک بنیادی تنازعہ کے طور پر مذاکرات کی میز پر لانا ناگزیر ہے۔ چیئرمین پی پی پی نے واضح کیا کہ بھارت کی جارحانہ پالیسی کے باعث خطہ نیو نارمل جیسی صورتحال سے دوچار ہو رہا ہے، جہاں کسی بھی دہشت گرد حملے کے نتیجے میں کوئی بھی ملک جنگ چھیڑ سکتا ہے۔ پونے دو ارب افراد کی تقدیرکو غیر ریاستی کرداروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس غیر یقینی اور غیر متوازن فضا کو معمول کے طور پر قبول کرنا نہ صرف خطرناک ہے بلکہ اسے فوری طور پر ختم کرنا ضروری ہے۔
دوسری جانب، پاکستانی وفد نے امریکی وزارت خارجہ کی انڈر سیکرٹری برائے سیاسی امور ایلیسن ہوکر سے ایک مفید اور تعمیری ملاقات کی۔ بلاول بھٹو کی قیادت میں وفد نے پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر کے قیام میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو کے کردار کو سراہا۔ پاکستانی وفد نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ پیشرفت جنوبی ایشیا میں پائیدار امن و استحکام کے لیے مکالمے کی راہ ہموار کرے گی۔ وفد نے بھارت کی بلااشتعال جارحیت، مسلسل اشتعال انگیز بیانات اور سندھ طاس معاہدے کی غیر قانونی معطلی پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔
علاوہ ازیں، پاکستانی سفارتی کمیٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستانی وفد نے امریکی قانون سازوں سے ملاقاتیں کیں جس میں انھوں نے خطے میں امن و استحکام کی اہمیت کو اجاگر کیا اور پاکستان بھارت جنگ میں امریکی کردار کو سراہا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اس وفد کو امن کا مشن دیا ہے، اس مشن میں بھارت سے بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنا شامل ہے، جنگ بندی خوش آئند ضرور ہے، لیکن یہ محض ایک آغاز ہے۔ بھارت اور پاکستان، جنوبی ایشیا اور بالواسطہ طور پر پوری دنیا آج اس بحران کے آغاز کے وقت کی نسبت زیادہ غیر محفوظ ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مکمل جنگ کی حد ہماری تاریخ میں کبھی بھی اتنی کم نہیں رہی۔ اراکین کانگریس سے ملاقات میں بلاول زرداری نے سندھ طاس معاہدے کی بھارت کی جانب سے یکطرفہ معطلی کے ممکنہ نتائج سے امریکی قانون سازوں کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کا 24 کروڑ پاکستانیوں کے لیے پانی بند کرنے کا عندیہ ایک وجودی خطرہ ہے۔ چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ امریکا ہمارے اس امن کے مشن میں ہمارا ساتھ دے اور اپنی قوت امن کے پیچھے لگائے تو وہ بھارت کو سمجھا سکتا ہے۔ مسائل کو حل کرنا ہے تو بھارت کو ایسی پالیسیوں سے روکا جا ئے جو خطے اور دنیا کے لیے عدم استحکام کا باعث بنیں۔ امریکی کانگریس کے ارکان نے جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کے لیے پاکستانی وفد کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔
ادھر، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی میں اپنے کردار کا دعویٰ دہرایا ہے۔ وائٹ ہائوس میں جرمن چانسلر فریڈرک مرٹز سے ملاقات کے دوران میڈیا سے گفتگو میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میں نے دو ایٹمی ریاستوں کے درمیان جنگ رکوا دی۔ میں نے دونوں ممالک سے کہا کہ اگر آپ گولیاں چلائیں گے تو تجارت بند ہو جائے گی۔ٹرمپ نے مزید کہا کہ پاکستان میں بہت مضبوط لیڈر شپ ہے، جس سے ان کے پاکستان کی حکومت پر اعتماد کا اظہار سامنے آیا۔یاد رہے کہ صدر ٹرمپ اس دعوے کو درجنوں بار دہرا چکے ہیں کہ انھوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کرائی۔تاہم، بھارت کی مودی حکومت ہر بار اس دعوے پر شدید ناراضی کا اظہار کرتی ہے اور بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس اسے مودی سرکار پر طنز کا موقع بنا لیتی ہے۔بھارت کی جانب سے ٹرمپ کے کردار کی مسلسل تردید کی جاتی رہی ہے۔ پچھلے ماہ بھارتی سیکرٹری خارجہ وکرم مسری نے پارلیمانی کمیٹی کو بتایا کہ یہ جنگ بندی مکمل طور پر دو طرفہ تھی، ٹرمپ کا کوئی کردار نہیں تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ نے ہم سے بیچ میں آنے کی اجازت نہیں لی بلکہ وہ خود ہی اسٹیج پر آ گئے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر ہی بڑی جنگ کا خطرہ پیدا کیے ہوئے ہے اور ان کے مابین جنگ کی صورت میں صرف ان دو ملکوں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو ناقابلِ تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ جب تک یہ مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل نہیں ہوتا، جنگ کے خطرات مسلسل منڈلاتے رہیں گے۔ 10 مئی کو پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کراتے ہوئے بھی اور اس سے پہلے اور بعد میں بھی صدر ٹرمپ یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ دونوں ملکوں کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل پر کام کرنا چاہتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے یہ نہایت اہم موقع ہے کیونکہ بین الااقوامی اور عالمی سطح پر ایک طویل عرصے کے بعد اس مسئلے کو اس زاویے سے دیکھا جا رہا ہے۔ بھارت نے تو جنگ بندی کے بعد بھی پاکستان کے ساتھ کشیدگی کی فضا مسلسل برقرار رکھی ہوئی ہے اس لیئے دفاع وطن کی خاطر ہماری مسلح افواج بھی ہمہ وقت الرٹ ہیں۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے بھی اسی تناظر میں سعودی عرب سے واپس آتے ہی اگلے مورچوں کا دورہ کیا، عید کا دن جوانوں کے ساتھ گذارا اور ان کا حوصلہ بڑھایا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ صدر ٹرمپ سے اس حوالے سے بات کرے کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا کردارادا کریں۔ اس مسئلے کو حل کر کے ہی اس خطے اور پوری دنیا کو جنگ سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

اسرائیلی بربادی کا نقطہ آغاز

امتیاز حسین کاظمیimtiazkazmi@gmail.com13جون2025 کی صبح اسرائیل کی جانب سے ایران میں درجنوں مقامات پر حملے کر کے فوجی اہداف اور اہم شخصیات ...