مستقل اور عارضی قومی مصیبت

عید کے تینوں دن اسرائیل نے غزہ پر راکٹ اور گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہر روز سینکڑوں جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ میڈیا کے مطابق مرنے والوں کی اوسط تعداد ہر روز کی ایک سو ہے لیکن دو ہفتے پہلے ایک دن ایسا بھی آیا کہ ساڑھے چھ سو جاں بحق ہوئے۔ (میں انہیں شہید کیوں نہیں کہہ رہا یہ آگے چل کر سمجھ میں آ جائے گا) بہرحال، میڈیا کے مطابق اوسط ہر روز کی ایک سو مارنا اور کئی سو کو ان کے اعضا سے محروم کر کے عمر بھر کے لئے زندہ درگور کرنا ہے۔
عید سے ایک روز قبل غزہ والوں کے بارے میں سوچ سوچ کر دل پہلے سے زیادہ، دکھی ہو گیا۔ اتنا کہ نیند اکھڑ جاتی اور یہ خیال آتا کہ ہم صرف خبریں سن کر کلپ اور تصور میں دیکھ کر برداشت نہیں کر پا رہے، جن پر قیامت گزر رہی ہے، جن پر ہر لمحے موت برس رہی ہے، ان کا عالم کیا ہوگا۔
لیکن پریشانی کا یہ مسئلہ حل ہو گیا، بالآخر۔ خطبہ حج سنا۔ اس میں بہت اچھی اچھی باتیں تھیں۔ انتظار کرتا رہا غزہ کا ذکر بھی ہوگا۔ آخر خطبہ تمام ہوا۔ جو بات سمجھ میں آئی وہ یہ کہ غزہ کا مسئلہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ یہ ایک ناقابل ذکر معاملہ ہے۔ افسوس ہوا کہ اخبار کی قیمتی جگہ غزہ کا ذکر کر کے ضیاع کا مرتکب ہوا۔
ناقابل ذکر لوگ۔ آپ کی مرضی ہے انہیں شہید کہتے رہیں مجھے کوئی اغراض نہیں!
-----------------
صدر آف علی زرداری نے کہا ہے کہ ہندوتوا کا نظریہ علاقے کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔ علاقہ یعنی پاکستان، بنگلہ دیش، شاید دوسرے پڑوسی ممالک پر بھی ’’علاقہ‘‘ کا اطلاق کیا جا سکتا ہے۔ وہ ایوان صدر میں ملاقاتیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
اصولی طور پر تو ان کی بات درست ہے لیکن عملی طور پر تصویر کچھ اور بتا رہی ہے۔ خطہ تو بچ نکلے گا، خود بھارت کی سلامتی اس نظریہ سے خطرے میں پڑ جائے گی۔ پڑ کیا جائے گی، پڑنا شروع ہو گئی ہے۔
بھارت کا سماج جو مسلمانوں سے امتیازی سلوک اور بار بار ان کے قتل عام کے باوجود سلامت رہا، اب دراڑوں کی نذر ہو رہا ہے۔ پہلی بات یہ کہ ہندوتوا کا نظریہ یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کو تنگ کیا جائے بلکہ یہ ہے کہ ان کا خاتمہ کر دیا جائے۔ کچھ کو واپس ہندو بنا دیا جائے، باقیوں کو مار دیا جائے یا پاکستان دھکیل دیا جائے۔
مسئلہ یہ ہے کہ بھارتی مسلمانوں کی گنتی 25 کروڑ ہے۔ یہ اقلیت سہی لیکن پھر بھی اتنی بڑی گنتی ہے کہ مقصد پورا ہونا ممکن نہیں۔ 25 کروڑ کی آبادی انگور کا دانہ نہیں کہ اسے نگل لیا جائے۔
عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ خود ہندو سماج میں ہندوتوا کی مزاحمت ہو رہی ہے۔ ہر قوم کی طرح ہندو قوم میں بھی ہر طرح کے لوگ ہیں۔ انسانیت پسند بھی، لبرل اور سیکولر بھی اور وہ بھی جو کٹڑ ہندو ہیں لیکن سمجھتے ہیں کہ ہندوتوا کی لہر عجلت پسندی کی حکومت ہے۔
پاکستان کا بھارت کچھ بگاڑ نہیں سکتا کہ حالات بدل گئے۔ اور مشرقی پڑوسی بنگلہ دیش بھی ’’برہموسواستیکا‘‘ کے چکرے سے نکل آیا۔ کئی عوامل اور بھی ہیں جنہیں سب دنیا مان رہی ہے۔ اس لئے خطے کو خطرہ نہیں ہے، خود بھارت کو خطرہ ہے اور خود ’’ہندوتوا‘‘ کو خطرہ ہے۔
-----------------
صدر زرداری نے ملاقاتیوں سے زراعت کو فروغ دینے کے بارے میں بھی کچھ باتیں کیں۔ مطلب ’’اتحادیوں‘‘ میں نظریاتی دراڑ ہے۔
وفاقی حکومت زراعت کی بیخ کنی کو لازم خیال کرتی ہے۔ زرداری صاحب زراعت کو بچانے کے حامی ہیں۔ پنجاب حکومت بھی زراعت کی ثقافت سے صوبے کو نجات لانے کے لئے سرگرم ہے۔
یعنی نظریاتی ’’اختلاف‘‘ گہرا ہے۔ دیکھئے اس نظریاتی جنگ میں جیت کسے ٹکتی ہے۔
-----------------
کراچی میں پیپلزپارٹی کے میئر مرتضیٰ وہاب نے ایم کیو ایم کو مستقل قومی مصیبت قرار دیا ہے۔ بالکل بجا۔ اس درست فقرے کا ایک درست ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کراچی پر پیپلزپارٹی کی میئر شپ عارضی قومی مصیبت ہے۔ مستقل ایم کیو ایم، عارضی مرتضیٰ وہاب۔
مرتضیٰ وہاب بھی کراچی ہی کے رہنے والے ہیں لیکن کراچی اور کراچی والوں سے ان کا سلوک وہی ہے جو دلی والوں کے ساتھ نادر شاہ نے کیا تھا۔ چنانچہ نادر شاہی دور میں کراچی ’’باں باں‘‘ کر اٹھا ہے۔ شہریوں کو حاصل آخری سہولیات بھی مرتضیٰ وہاب کی نادر شاہی نے چھین لیں۔ عید پر تین کروڑ آبادی غلاظتوں اور آلائشوں کے ڈھیر میں بدل گئی۔ میرا ذاتی خیال ہے، جب تک مرتضیٰ وہاب میئر ہیں، علمائے کرام فتویٰ جاری کر دیں کہ تب تک قربانی کا عمل ساقط رہے گا۔
-----------------
پی ٹی آئی کے قاف لیگ گروپ کے سربراہ چودھری پرویز الٰہی عرصہ دراز کے بعد پھرسے زمزہ پر دراز ہوئے ہیں۔ اب تک منقار زیر پر تھے، لال حویلی والے طوطے نے چونچ کھولی تو یہ بھی گویا ہو گئے۔ کچھ مدح سرائی مرشد کی بھی اور قدح سرائی حکومت کی کر ڈالی۔ کچھ اور بھی ارشاد فرمایا، کسی کی سمجھ میں آیا، کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔
ان کی تگ و دو مٹی ’’پھرولنے‘‘ کے مترادف ہے جس کا عنوان کچھ یوں ہو سکتا ہے کہ:
تیرا لبھنا نئیں لال گواچا،
مٹی نہ پھرول جٹا
-----------------
چیئرمین کسان اتحاد خالد حسین نے کہا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے کسانوں کو 15 سے 20 کھرب کا نقصان ہوا، گندم کی پیداوار اس سال 30 فیصد کم ہوئی۔
کوئی خاص نقصان نہیں ہے۔ کچھ آمد اور برآمد کنندگان کو ریلیف پہنچانے کے لئے کسانوں کو اتنا معمولی سا نقصان حرز جان نہیں بنا لینا چاہئے۔ وہ دکھیارے درآمد، برآمد کنندگان کی اسی طرح مدد کرتے ہیں، اللہ ان کا بھلا کرے گا۔
انہوں نے کہا پنجاب حکومت نے ایک تقریر میں کسانوں کو مافیا کہا ہے۔ درخواست ہے کہ اس کسان مافیا کو اب معاف کر دیں۔ مافیا کو معلوم ہونا چاہے کہ مافیا کو معافی نہیں ملا کرتی۔

ای پیپر دی نیشن