پاکستان میں وفاقی حکومت کی جانب سے موجودہ مالی سال کے لیے اقتصادی سروے جاری کر دیا گیا ہے جس میں موجودہ مالی سال میں اب تک ملکی معیشت کی صورتحال اور مختلف معاشی اشاریوں میں رد و بدل کے بارے میں تفصیلات جاری کی گئی ہیں۔ میری سمجھ ایک بنیادی سوال نہیں آ رہا کہ ہم عوام سے سچ کب بولیں گے جس ملک کی آبادی 2.5 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہو اور زرعی ترقی 0.5 فیصد ہو کیا ادھر کسی بھی ترقی کا اشارعیہ مل سکتا ہے میں اس کا ذمہ دار موجودہ حکومت یا وزیر خزانہ کو تو نہیں سمجھتا مگر سچ تو یہ بول سکتے ہیں اپنی ترقی کے راستے میں حائل سب سے بڑی وجہ پہ تو کوئی بات کرنے کو تیار نہیں
اگلے مالی سال کے لیے پیش کیے جانے والے بجٹ سے ایک دن قبل حکومت کی جانب سے جاری کئے گئے اس اقتصادی سروے میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ موجودہ مالی سال میں ملکی معاشی ترقی کی شرح 2.7 فیصد رہے گی۔
پاکستانی حکومت نے اس بنیاد پر معاشی ترقی کا دعویٰ کیا ہے کہ اس کی پالیسی اور سخت مالیاتی اقدامات نے ملکی معاشی شرح نمو کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے جو دو سال قبل منفی تھی اور گذشتہ مالی سال میں اس میں معمولی بہتری ریکارڈ کی گئی تھی۔ تاہم بعض معاشی ماہرین نے اعداد و شمار پر سوالات اٹھائے ہیں۔
حکومت کی جانب سے موجودہ مالی سال میں اقتصادی ترقی کا دعویٰ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب اس اقتصادی سروے میں خود حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ ملک میں بڑی فصلوں کی پیداوار اور بڑی صنعتوں کی پیداوار میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ کمی بھی ان فصلوں میں ھوئی ہے جو ہر آدمی کی ضرورت ہے گندم گنا تباہ برباد ہو گیا اور کم از کم 16 فیصد سے زائد کمی واقع ہوئی اور آئندہ سال توقع رکھیں کہ اس میں مزید کمی واقع ہو گی اور اس میں تمام وجوہات ہوں گی مگر بڑی اور بنیادی وجہ حکومتی پالیسی ہی رہی نا اہلی منصوبہ بندی کا فقدان کسان سے لاتعلقی اور زرعی ماہرین سے بے اعتنائی اور دنیا میں رایج زرعی اقدامات سے انحراف اور زراعت سے مکمل لا علم لوگوں کا با اختیار ہونا ہی زرعی شعبے کی تباہی کی وجہ بن رہا ہے 5 لوگ پیدا ہو رہے ہیں اور آپ صرف ایک کے لیے فصل پیدا کر رہے ہیں جب 25 کروڑ کے ملک میں یہ منصوبہ بندی ہو گی تو امپورٹ بل میں 7 ارب ڈالر کا اضافہ صرف غذائی ضرورت پوری کرنے کے لیے اضافہ خرچ کرنا ہی پڑے گا آگے تیاری رکھیں مہنگی کھاد مہنگا بیج مہنگا ڈیزل مہنگا پانی آپ کے کسان سے جینے کا حق بھی لے گا کچھ خدا کا خوف کھاہیں جشن فتح کو برقرار رکھنا ہے تو فوج کی مدد کریں کسان کی مشکل کو سمجھنے کی کوشش کریں اسکی مدد کریں پاکستان ایک زرعی ملک ہے دالیں سبزیاں فروٹ بیج چینی امپورٹ کرتا ہے کیا ترقی کا معیار ہے محترم وزیرخزانہ کو چاہیے کہ آئندہ سال اور آنے والے سالوں کے لیے زرعی ترقی کے لیے طویل مدتی اور فوری علاج ایک ساتھ شروع کرنے کے لیے کام کریں زرعی ماہرین سے ملاقاتیں عالمی زراعت سے آگاہی حاصل کریں پہلے گھر کی ضرورت پوری کرنے پہ کام کریں پھر ویلیو اییڈ ڈ پروڈکٹ پہ بھی کام کر لیں گے کپا س کی کاشت کو تباہ کر کے گنے کی فصل کو بڑھاوہ دے کہ دیکھ لیا کہ پانی دے نہیں پا رہے چینی سستی کر نہیں پا رہے ٹیکسٹائل ملز بند کرا لیں کاٹن امپورٹ کر رہے ہیں یہ ہے پاکستان کے ماہرین اقتصادیا ت کہ ملک کس طرح برباد ہوتا ہے اب ہمیں طویل مدت تک اپنی ضرورت کے مطابق فیصلہ کرنا ہو گا اس ملک میں آبادی پر کنٹرول کرنے کے لیے چین کی طرز پر منصوبہ بندی کرنی ہو گی جو اگلے دس سال لاگو رہنی چاہئے تعلیم کے تمام شعبوں اور زرائع ابلاغ کے زریعے اس سوچ اور ضرورت اور مجبوری کو قوم کو آگاہ کرنا اور علما اکرام کا تعاون حاصل کرنا ہو گا ایک کل جہتی منصوبہ تشکیل دینا ہو گا۔
وزیر خزانہ نے بتایا ہے کہ گذشتہ تین سال کے عرصے میں دنیا بھر میں پیداوار میں کمی دیکھی گئی ہے مگر پاکستان میں پیداوار بڑھی اور مہنگی میں کمی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ زرعی پیداوار میں گراوٹ کی کئی وجوہات ہیں، جیسے پانی اور بارش میں کمی‘ بڑی فصلوں کی پیداوار میں کمی مگر صنعتی پیداوار میں اضافہ اگر ہوا ہے تو روزگار میں اصافہ بھی ریکارڈ ہونا چاہیے مگر ایسا نظر نہیں آتا کاغذوں میں ممکن ہے مگر ملک میں بے روزگاری کی شرح اور قوت خرید میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے موجودہ مالی سال میں پاکستان کی معیشت کا سائز چار سو گیارہ ارب ڈالر ہو گیا جو گذشتہ مالی سال میں 372 ارب ڈالر تھا۔ حقیقی ترقی عوام کے چہروں سے نظر آجاتی ہے یہ لفظوں کے گورکھ دھندے سے نظر نہیں آتی جس طرح 10 مئی اب کسی کی تعریف کا محتاج نہیں قوم کے چہرے پہ لکھا ہے کہ ہم شاد ھیںاور دمکتے چہرے بتا دیتے ہیں محترم جب مہنگائی ختم ہو گی تو عوام کے چہروں سے نظر آ جائے گی 270 کا پٹرول 100 کا بجلی کا یونٹ اور 200 روپے چینی اس مسکراہٹ کو چھین چکی ہے ڈالر 280 کا ہو تو کس طرح کہیں گے ہم کہ ترقی ہو رہی ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ موجودہ مالی سال میں زرعی ترقی کی شرح ایک فیصد سے کم رہی جبکہ ملک میں بڑی فصلوں کی پیداوار میں 13 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔
ان کے مطابق جی ڈی پی میں زرعی شعبے کا حصہ میں بھی موجودہ مالی سال میں کم ہوا ہے۔ ’ملک میں صنعتی ترقی کی شرح چار فیصد سے زائد رہی تاہم ملک میں بڑی صنعتی کی پیداوار میں ڈیڑھ فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔‘
انہوں نے کہا کہ ملک میں موجودہ مالی سال کے پہلے دس مہینوں میں ٹیکس کولیکشن میں پچیس فیصد کا اضافہ ہوا، یہ اب نو ہزار ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔
حکومت کا قرضہ 76 ہزار ارب روپے ہو گیا۔
موجودہ مالی سال کے پہلے نو مہینوں میں حکومت کے ذمے قرضے کا حجم 76007 ارب روپے ہو گیا ہے۔
موجودہ مالی سال کے اقتصادی سروے کے مطابق اس میں مقامی بینکوں کے قرضے کا حجم ساڑھے اکیاون ہزار ارب روپے رہا جبکہ بیرون ملک سے لیے جانے والے قرض کی مالیت ساڑھے چوبیس ہزار ارب روپے تھی۔
سروے کے مطابق مقامی قرضوں کے لیے حکومت نے مقامی کمرشل بینکوں پر انحصار کیا۔ تعلیم کے شعبے میں پاکستان کی خواندگی کی شرح ساٹھ اعشاریہ سات فیصد رہی۔
شہری علاقوں میں خواندگی کی شرح دیہاتی علاقوں کے مقابلے میں زیادہ رہی۔
پنجاب میں خواندگی کی شرح سب سے زیادہ رہی جو چھیاسٹھ فیصد ہے۔ سندھ میں خواندگی کی شرح ساڑھے ستاون فیصد، خیبر پختونخوا میں اکیاون فیصد اور بلوچستان میں خواندگی کی شرح بیالس فیصد رہی۔ہماری ترقی کا گراف صرف عوام کی زندگی انکے چہرے سے نظر آ سکتا ہے اس پر خوشی لانے کے لیے کام کیجے چہرے دمکیں گے تو سب درست سمت میں ہو گا کسان بد حال حاری تباہ برباد مل کے مزدور بے روزگار تو حضور جب 97 فیصد خوش نہیں تو ترقی تو صرف 3 فیصد لوگوں کے خزانے بھرنے اور باقی سب کو کنگال کرنے کا نام ہوا بدل ڈالیں اس دقیانوسی ترقی کے نظام کو حقیقی ترقی کے لیے عوام سے مل کے کام کریں جدہر عوام کو انصاف اور جینے کا حق میسر ہو یہ کام کس کے حصے میں آتا ہے اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا جس طرح کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بھارت چاروں شانے چت ہو گا اور اس عظیم کام کا ہیرو فیلڈ مارشل عاصم منیر ہوگا یہ کام حوصلے سے ہوا ہے ورنہ قمر جاوید باجوہ تو فرماتے تھے کہ ہمارے پاس چار دن سے زیادہ جنگ کا پٹرول بھی نہیں ہے جیتتے وہی ہیں جو ہمت کرتے ہیں۔