
پیرس کی ڈائری
محمود بھٹی
اللہ کی بیشتر رحمتیں اکثر
کافروں کے ملکوں میں کیوں برستی ہیں ؟ دین اسلام بہترین دین ہے مگر لادین غیر اسلامی معاشرے اتنی ترقی کیوں کررہے ہیں؟ ان دونوں سوالوں کا جواب بہت ہی آسان ہیں، مغربی ممالک نے اپنے معاشروں میں تعلیم کا حصول، قانون کی پیروی اور حقوق العباد کہ فراہمی کو نہ صرف سرکاری بلکہ سماجی سطح پر لازم کر دیا ہے، مجال ہے کوئی اسکی خلاف ورزی کرے، اگر کوئی خلاف ورزی کرتا ہے تو فوراً قانون حرکت میں آتا ہے، سفید چمڑی والوں نے اپنے شہریوں کو سماجی غیر یقینی کی صورتحال سے آزاد کردیا ہے، کافروں کے ممالک میں ?نہ جگہ جگہ تبلیغی اجتماع ہوتے ہیں ، نہ عمرہ حج کرنے جانے والوں کا رش ہوتا ہے ، نہ گلی گلی مساجد مدارس پائے جاتے ہیں، نہ لاکھوں علما ہیں جو دن رات درس دیتے رہتے ہیں، وہاں نہ کوئی پیر ہیں نہ پیرنیاں، نہ مولانا طارق جمیل ہیں ، نہ کوئی مزار ہے نہ دربار اس کے باوجود وہ ممالک جنت نظیر ہیں، ریاست ہر ایک کی مالی امداد کرتی ہے ،?کوئی بھوکا نہیں سوتا ہے ، ایسا نظام بنا دیا گیا ہے جس میں کوئی ٹیکس چوری نہیں کرسکتا ہے اور نہ حکومت ناجائز ٹیکس وصول کرتی ہے، اخلاق اتنا ہے کہ دوسروں کی نجی زندگی کا مکمل تحفظ یقینی بنایا گیا ہے، وہ تحقیق پر محفوظ سرمایہ کاری کرتے ہیں، ?اگر کوئی تفریح نہیں کرتا ہے تو اسے نفسیاتی علاج کروانے کا مشورہ دیا جاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو پاگل نہیں سمجھتا بلکہ واقعی نفسیاتی سیشن کروانے چلا جاتا ہے، وہ اپنی پھیلائی گندگی کو خود صاف کرتے ہیں، وقت ضائع کرنا انکی ڈکشنری میں ہے ہی نہیں، سفر کے دوران کتابیں پڑھنا مفید سمجھا جاتا ہے، کسی کے کردار کو ?پابندی وقت سے جانچا جاتا ہے، غلطی پر معذرت کیلئے تیار رہتے ہیں، ذرا سوچیں جس دن انھوں نے کلمہ پڑھ لیا تو ہم مسلمانوں کا کیا بنے گا؟ وہ تو ہم سے ہمارا خدا، ہمارا نبی، ہمارا دین اور ہماری جنت تک چھین کر لے جائیں گے، اس کے مقابلے میں ہمارے وطن پاکستان میں بلا روک ٹوک پانچ وقت اذان گونجتی ہے، خوشبو سے معطر ہوکر لوگ نماز جمعہ و دیگر نمازیں ادا کرتے ہیں، بار بار حج، عمرہ کرنے کیلئے اللہ کے گھر حاضری دیتے ہیں، رمضان میں دل کھول کر خیرات کرتے ہیں، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر رائیونڈ اجتماع پر جاتے ہیں، درباروں پر رونقیں لگی رہتی ہیں اور لنگر بلا تعطل جاری رہتا ہے، رمضان میں بطور خاص مسجدیں بھر جاتی ہیں، شبینہ کی محافل باقاعدہ ہوتی ہیں، نعت گوئی کے ذریعے حضور کے حضور حاضری دینے کا قصد کیا جاتا ہے تو اس ملک کو دنیا کا سب سے شاندار اور قابل تحسین ملک ہونا چاہیئے، لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے، حکومت ہو یا انتظامیہ، عدلیہ ہو یا قانونی نافذ کرنیوالے ادارے، انکی ترجیحات میں عوامی فلاح ہے ہی نہیں، عوام کو بھی اسکی ذرہ بھر پروا نہیں ہے، آج بھی میرا ملک بے یقینی کا شکار ہے، دن دیہاڑے لوگ ایک دوسرے کو دھوکہ دے رہے ہیں، دوسروں کی زمینوں اور گھروں پر جعلسازی کرکے قبضہ کرنا کاروبار بن چکا ہے ، وہ یتیموں بیوائوں اور بہنوں کے حق غصب کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، ازالے کیلئے عدالتوں سے رجوع کیا جاتا ہے تو دادا کیس کرتا ہے پوتا فیصلہ سنتا ہے، لوگ مرجاتے جاتے ہیں لیکن قبضہ مافیا زندہ و جاوید رہتا ہے، عدالتیں اپنی خبریں شائع کروانے کیلئے ریمارکس دیتی رہتی ہیں لیکن مجال ہے کبھی کسی کو انصاف اسکی دہلیز پر ملا ہو، کاروبار کے نام پر کم تولا جارہا ہے، جھوٹے معاہدے جاری ہیں،اللہ کے نور دودھ میں کھلے عام ملاوٹ ہورہی ہے، کیمیکل زدہ جعلی دودھ بنا کر بضد ہیں کہ یہ تو کاروبار ہے، ملاوٹ زدہ مصالحہ جات، آٹے سے لیکر چاولوں تک ہر چیز میں ملاوٹ کرنا فیشن بن چکا ہے، پتہ نہیں یہ دھوکے باز کس دین کے پیروکار ہیں جو انھیں یہ سب کچھ کرنے کی اجازت دیتا ہے، پتہ نہیں یہ روز جزا کے دن اپنے رب کے حضور کیسے پیش ہوں گے؟ کیا جواب دیں گے؟ انکی نمازیں، حج، روزے اور عمرے اس ضمن میں کیا کہتے ہیں؟ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ کرنے والے افراد دین اسلام کے دائرے میں رہ جاتے ہیں؟ کیا یہ سب کچھ کے بعد وہ اللہ کی پسند بن سکتے ہیں؟