
فہمیدہ کوثر
تاریخ نے تو یہی ثابت کیا ہے کہ ہر غلطی کا ایک خمیازہ ہوتا ہے جو بھگتنا پڑتا ہے زندگی کے کھیل میں توذرا بھی غلطی کی گنجائش نہیں بقول امجد اسلام امجد
زندگی کے پرچے میں
سب سوال مشکل ہیں
سب سوال لازم ہے
لیکن اکثر یہ ہوتا ہے کہ امتحانی مرکز میں دئے گئے سوال میں تحریر ہوتا ہے کاٹ کر لکھا ہوا غلط متصور ہوگا تو اکثر کاٹ کر لکھے ہوئے جواب ملتے ہیں ایک مزاح نگار نے لکھاکہ ہم من حیث القوم الٹ سمت چلتے ہیں اس لئے اسی سمت جا پہنچتے ہیں جہاں سے سفر شروع کیا تھا ہم لوگ افراتفری کو بھی افراتفریح سمجھ لیتے ہیں دعا کو دغا اور محرم کومجرم سمجھتے ہیں تو استحکام کیسے آئے گا رہا غلطی کا سوال تو یہ عنصر سیاست میں داخل ہوجائے تو پھر غلطیاں در غلطیاں جنم لیتی ہیں قائد نے سیاست کوشطرنج قرار دیا جہان ہرمہرے کو سوچ بچار اور ٹھنڈے دل اور دماغ سے چلناپڑتاہے جذبات اور غصے کی گنجائش نہیں ہوتی ہے سیاست محبوب کادل نہیں کے بار بار ہار آخرش جیت بن جاتی ہے بلکہ وہ کھیل ہے کہ ذرا سی غلطی ایک کویا دونوں فریقوں کو لے ڈوبتی ہے بقول شاعر
ہم تو ڈوبے ہیں صنم تمکو بھی لے ڈوبیں گے
ہار کا خوف ہی ہراتا ہے ایک مجمع میں دس بارہ آدمیوں نے دبوچا ہوا تھا اور رو بھی رہے تھے قریب سے ایک راہگیر گزرا اس نے کہا شرم کرو تم ہٹے کٹے لوگوں نے اایک پتلے دبلے انسان کودبوچا ہوا ہے تو ان میں سے ایک بولا اگر ہم نے اسے چھوڑا تو یہ ہمیں مارے گا پسپائی کاخوف ہی پسپائی ہے اس لئے چاہے جنگ کامیدان ہو یاکھیل کامیدان بہادری اور اسپورٹس مین اسپرٹ بہت کام اتی ہے
ہم زندگی کے کھیل میں ہارے ضرور ہیں
لیکن کسی مقام پر پسپا نہیں ہوئے
اندلس کے فرمانروا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جب میادان جنگ میں گیا تو اس نے اپنے وزیر تدبیر سے کہا کہ جاؤ خوشبو والا تیل لے کے آؤ وزیر باتدبیر بڑا حیان ہوا کیونکہ تدبیریں دینا اور سب اچھا ہے کی رپورٹ دینا تاریخ میں وزیر باتدبیر آپکوجہانگیری دور میں بھی نطر آئنگے اور اکبری دور مین بھی کہاجاتا ہے کے دور مین بھی نطر آئیں کے کہاجاتا ہیکہ انارکلی کو زندہ درگور کرنے کامشورہ بھی کسی وزیرباتدبیر نے دخل در شاہانہ معاملات قراردے کر اکبر کومشورہ دیا تھا قائد اپنے خطبات میں جمہورتاریخ اسقدر الجھی ہوئی ہے کہ اس دور کامورخ ایشوری پرشاد نورجہاں کو ذہین اور عقل مند قرار دیتا تھا جواڑتی چڑیاکے پر تک گن لیتی تھی جس نے برھان پور سے لاھورآتے ہوئے راستے میں جہاگیر کی موت پر تخت لاہور پر بیٹھی پھر وہ کبوتر کو ایک ہاتھ سے اڑانے اور پھر جہاگیر کے پوچھنے پر دوسرے ہاتھ سے بھی کبوتر اڑادینا در حقیقت کسی وزیر باتدبیر کہ نورجہاں کو جہانگیر کادل جیتنے کی تدبیر ہوسکتی ہے سیاست اور تاریخ میں اوٹ ایک کروٹ نہیں بیٹھتاہیقائد اپنے فرمودات میں جمہوری رویوں کے حامی اورفسطائیت کے سخت خلاف رہے ہیں ان کانظریہ تھاکہ جتنی ریاست فسطائی ہوگی اتنا ہی عوام کا اعتماد حکومت پرکم ہوگا فسطائی ریاستیں مسائل کا حل ڈھونڈنے کی بجائے ان سازشوں کوروکنے کی طرف توجہ مبذول کردیتی ہیں جس سے وہ اپنے اقتدار کو استحکا بخشیں جن ممالک میں جمہوریت اور آئین کے اصولوں کی پاسداری ہوتی ہے وہاں استحکام ہوتا ہے ترقی پذیر ممالک بشمول پاکستان مین کیا ایسی انہونی بات ہے کہ استحکام کاپوداپنپتاہی نہیں ہے وجہ صرف یہ ہیکہ یہ ریاستیں عدلیہ اور جمہوری اداروں کو فعال بنانیکی بجائے اپنے اردگرد ایسے افراد اکٹھے کرلیتے ہیں جوصاحب اقتدار کی ذات اور نظریات کے ساتھ مخلص ہوں کیونکہ ان حکومتوں کے پاس کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں ہوتا کیونکہ وہ پہلے سے ہی فرض کر چکی ہوتی ہیں کہ اگر ان کے کام میں کسی ادارے نے رکاوٹ ڈالی تو اسے رام کرلیاجائے گا اداروں پر بھروسہ کی بجائے مخصوص افراد پربھروسہ کرنے کاعمل سازشی ذہن تیار کرتا ہے اور اسکے تانے بانے اس مائنڈ سیٹ سے جالتے ہیں کہ اگر یہ مائنڈسیٹ سیاسی زندگی میں وارد ہوجائے تو ہر مسئلے کاحل طاقت ہی ٹھہرتا ہے گورباچوف سے پہلے بالشویک پاٹی کے خلاف نظریا رکھنے والوں کو سائبیا بھیج دیاجاتا تھا تاکہ وہاں کی سردی انکے دماغ ٹھنڈے کرسکے اور ضرورت پڑنے پر انکوبھی ٹھنڈا کردے
ہر مسئلہ