حکومت کا جاری کردہ اقتصادی سروے اور عوام کی توقعات
وفاقی وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار نے گزشتہ روز مالی سال 2023-2024ءکا جو اقتصادی سروے جاری کیا ہے‘ اسکے مطابق رواں مالی سال کے دوران معاشی اہداف حاصل نہیں ہو سکے۔ ترقی کی شرح 0.29 فیصد رہی جبکہ رواں مالی سال کے پہلے دس ماہ کے دوران مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا چار فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ فی کس آمدنی میں بھی کمی واقع ہوئی جو ایک ہزار 568 ڈالر سالانہ رہی۔ اسی طرح ملکی معیشت سکڑ کر 341 ارب ڈالر رہ گئی اور قرضوں پر سود کی ادائیگی میں 69 عشاریہ ایک فیصد اضافہ ہوا۔ درآمدات‘ برآمدات‘ ترسیلاتِ زر اور براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری میں بھی نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی۔ اسحاق ڈار کے بقول سیاسی عدم استحکام کے باعث معاشی ترقی تنزلی کا شکار رہی ہے جبکہ آئی ایم ای کے جاری ڈرامے نے ڈالر کو روپے کے مقابلہ میں جستیں بھرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اسی تناظر میں انہوں نے یہ عندیہ دیا کہ آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ انتخابات کے بعد نئی حکومت کریگی کیونکہ اس وقت آئی ایم ایف سے مذاکرات شروع کرنا غیرجمہوری اور یرمنصفانہ ہوگا۔ انکے بقول حکومت کے پاس پلان بی بھی موجود ہے۔
اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کے حوالے سے پی ٹی آئی حکومت کی پالیسیوں کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ 2018ءمیں حکومتی قرض 25 کھرب روپے تھا جو پی ٹی آئی کے دور کے چار سال کے دوران بڑھ کر 49.2 کھرب روپے ہو گیا۔ اس طرح ملکی قرضوں میں تقریباً 97 فیصد کا اضافہ ہوا۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے آئی ایم ایف سے طے شرائط پر عمل نہیں کیا اور اسکے برعکس کام کئے جس سے پاکستان کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی۔ اگر آئی ایم ایف کا قرض پروگرام بحال نہ ہوا تو ہم اپنے پلان بی کو بروئے کار لائیں گے۔ انکے بقول موجودہ اتحادی حکومت نے اپنے لئے بڑا سیاسی نقصان اٹھایا ہے مگر ریاست کو نقصان نہیں ہونے دیا اور ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا۔ ہم نے مجبوری میں بجلی‘ گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جبکہ گزشتہ تین ہفتوں میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے۔ اسحاق ڈار کے بقول مالی سال کے پہلے گیارہ ماہ میں ایف بی آر نے چھ ہزار 210 ارب روپے کے محاصل اکٹھے کئے جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 16 فیصد زیادہ ہیں۔
وزیر خزانہ کی جانب سے موجودہ اتحادی حکومت کا دوسرا اور آخری بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے جو مجموعی 14 ہزار پانچ سو ارب روپے کے حجم پر مبنی ہے۔ اس میں مالی خسارہ سات عشاریہ سات فیصد ظاہر کیا گیا ہے جبکہ مجوزہ بجٹ میں مختلف مدات میں 13 سو ارب روپے سبسڈی کیلئے مختص کئے گئے اور 18 سو ارب روپے دفاع کیلئے مختص ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے نوجوانوں‘ خواتین اور کسانوں کیلئے انقلابی پروگرام کی نوید سنائی ہے جبکہ بجٹ میں سرکاری ملازمین اور پنشنروں کی تنخواہوں اور پنشن کے علاوہ کم از کم اجرت میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ وزیراعظم اور وفاقی وزراءکی جانب سے مجوزہ بجٹ کو عوام دوست بجٹ بنانے کے دعوے کئے جاتے رہے جس کیلئے آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کی بحالی پر تکیہ کیا گیا مگر آئی ایم ایف نے بجٹ پیش ہونے تک قرض پروگرام کی بحالی کیلئے اپنی ناروا شرائط تھوپنے کا سلسلہ جاری رکھا جس میں نئے ٹیکسوں کے ذریعے راندہ ¿درگاہ عوام سے آٹھ ہزار 9 سو ارب روپے وصول کرنے کی شرط بھی عائد کی گئی جس پر عملدرآمد مرے کو مارے شاہ مدار کے ہی مترادف ہے۔ آئی ایم ایف کے پاکستان کیلئے مشن چیف نے بجٹ پیش ہونے سے ایک روز قبل بھی حکومت پاکستان کو باور کرایا‘ اسے اپنے بجٹ میں ہمیں مطمئن کرنا ہوگا‘ فارن ایکسچینج مارکیٹ کا کام بحال کرنا ہوگا اور چھ ارب ڈالر کا فرق ختم کرنے سے متعلق اپنے وعدے پورے کرنا ہونگے۔ آئی ایم ایف کے اس طرز عمل سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ حکومت کے ہاتھوں عوام کا اضطراب بڑھا کر حکومت اور سسٹم کو عدم استحکام کا شکار کئے رکھنے کے ان قوتوں اور عناصر کے ایجنڈے کی تکمیل چاہتا ہے جو پاکستان کو ایک آزاد و خودمختار ملک کی حیثیت سے پھلتا پھولتا اور اقوام عالم میں سر اٹھا کر چلتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے۔
بے شک پی ٹی آئی کی قیادت نے اپنی حکومت کو عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے گرتا ہوا دیکھ کر آئی ایم ایف کے ساتھ بدعہدی کی‘ جس کی بنیاد پر آئی ایم ایف نے پاکستان کا قرض پروگرام معطل کرنے میں ذرہ بھر دیر نہ لگائی جو پاکستان کی معیشت کمزور کرنے کیلئے ملک دشمن قوتوں کی پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ کی گئی ملی بھگت کی ہی عکاسی کرتا ہے مگر اتحادی جماعتوں کی حکومت نے بھی اپنے اقتدار کے سوا سال کے دوران آئی ایم ایف کی ہر شرط سر تسلیم خم کرتے ہوئے قبول کرکے عوام کو زندہ درگور کرنے میں کوئی کسر تو نہیں چھوڑی۔ اگر حکومت کے پاس اسکے دعوے کے مطابق قومی معیشت کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کیلئے کوئی بی پلان موجود ہے جس کا حوالہ اسحاق ڈار نے گزشتہ روز اپنی پریس بریفنگ میں بھی دیا ہے تو حکومت نے آئی ایم ایف سے مستقل خلاصی کیلئے اس پلان کو بروئے کار لانے کے عملی اقدامات کیوں نہیں اٹھائے۔ اور اب آئی ایم ایف کا معاملہ اگلی حکومت کے گلے ڈالنے کی حکمت عملی کیوں اختیار کی گئی ہے۔ حکومت تو اب بھی آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کی بحالی کی آس لگائے بیٹھی ہے جو اس کی گومگو والی پالیسی کا ہی عکاس ہے۔
بے شک حکومت نے گزشتہ تین پندھرواڑوں کے دوران پٹرولیم نرخوں میں کمی کرکے عوام کو انکے گھمبیر مسائل میں ریلیف دینے کی کوشش کی ہے مگر بجلی‘ گیس اور ادویات کے نرخ بڑھا کر حکومت نے پٹرولیم نرخوں میں کمی کے ثمرات عوام تک پہنچنے ہی نہیں دیئے جبکہ روزمرہ استعمال کی اشیاءکے نرخوں میں اضافے کا رجحان بھی برقرار ہے۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر پھر 305 روپے کی شرح تک جا پہنچا ہے اور سونے کی قیمت بھی دوبارہ جستیں بھرتی دکھائی دیتی ہے۔ اس صورت حال میں لوگ اسحاق ڈار کے اس مشورے کو کیونکر قبول کرینگے کہ وہ مستقبل کے منافع کیلئے ڈالر اور سونے کا ارتکاز نہ کریں۔ انہوں نے تو کرائے کم نہ کرنے والے ٹرانسپورٹروں کے بائیکاٹ کا بھی عوام کو مشورہ دیا ہے جو عملاً ناقابل عمل ہے۔ اگر حکومت منافع خوروں سے اپنی اتھارٹی تسلیم نہیں کرا سکتی تو عوام کیلئے ایسی حکمرانی لاحاصل ہے۔ عوام تو ناروا مہنگائی‘ بے روزگاری کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے عملاً زندہ درگور ہو چکے ہیں اس لئے انہیں انکے مسائل میں حقیقی ریلیف دیئے بغیر مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔ یہی موجودہ حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہے جس سے عہدہ برا¿ ہوئے بغیر وہ عوام کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔