ہفتہ‘ 20 ذیقعد‘ 1444ھ10 جون 2023ئ

عوام کو ریلیف دیکر ان کی جیبوں سے ڈبل نکالا جائیگا‘ اقتصادی ماہرین۔
اقتصادی ماہرین کے اس سروے سے سو نہیں‘ ہزار فیصد اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ ویسے ہمارے اقتصادی ماہرین نے یہ انکشاف کرکے کوئی بڑا کارنامہ سرانجام نہیں دیا‘ یہ تو اب بچے بچے کو علم ہے کہ ہماری حکومت ایک ہاتھ سے عوام کو معمولی ریلیف دیتی ہے تو دوسرے ہاتھ سے دگنا وصول کرتی ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ ریلیف کے اعلان ساتھ ہی وصولی کا عمل شروع کر دیا جاتا ہے۔ ایک طرف عوام کو ریلیف دینے کا جھانسہ دیکر پٹرول کے نرخوں میں معمولی سی کمی کردی جاتی ہے اور اسکی کسر بجلی‘ گیس کے نرخ بڑھا کر پوری کرلی جاتی ہے۔ یہی وہ حکومتی پالیسیاں ہیں جن کے باعث ہمارے ملک کی سیاسی رمزوں سے اب بچہ بچہ واقف ہو چکا ہے۔ جس وقت قارئین یہ سطور پڑھ رہے ہونگے‘ بجٹ پیش کیا جا چکا ہوگا۔ اس بجٹ میں عوام کی کیا درگت بنی ہوگی‘ وہ بھی آج قوم کو پتہ چل چکا ہوگا۔ ہم کوئی ماہر اقتصادیات تو نہیں لیکن اتنا ضرور جانتے ہیں کہ بجٹ اجلاس میں عوام کے بجائے آئی ایم ایف جیسے مالیاتی اداروں کو مطمئن کرنے کی کوشش جائیگی جس کا تقاضا گزشتہ روز آئی ایم ایف کر بھی چکا ہے۔ عوام کا کیا ہے‘ بجٹ پیش ہونے کے بعد ایک دو روز غم و غصہ کرینگے‘ پھر ہمیشہ کی طرح مہنگائی برداشت کرنے کے عادی ہو جائیں گے۔ حکمران بھی جان چکے ہیں کہ پاکستانی قوم صبر و برداشت کی اذیت جھیلنے کے بعد اب کندن بن چکی ہے اس لئے اسے مطمئن کرنے کے بجائے اس مالیاتی ادارے کو مطمئن کیا جائے جس سے فائدہ بھی ہو۔ ایک وقت تھا جب سالانہ بجٹ پیش کیا جاتا تھا تو پوری قوم کی نظریں بجٹ اجلاس پر ہوا کرتی تھیں‘ اب سب کو علم ہے کہ بجٹ میں کسے ریلیف ملے گا اور کس کی درگت بنے گی۔ اور پھر اس پر ہی اکتفا نہیں کیا جائیگا‘ مالیاتی اداروں کو خوش کرنے کیلئے ہمیشہ کی طرح منی بجٹ کا بھی اہتمام کیا جائیگا‘ چاہے عوام کا بھرکس ہی کیوں نہ نکل جائے۔
٭....٭....٭
خون کا عطیہ دینے والوں کا عالمی دن 14 جون کو منایا جائیگا۔
کہتے ہیں کہ کسی ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کے برابر ہے۔ خون کا عطیہ دیکر انسانوں کی جان بچانے والے واقعی قابل تحسین ہیں اس لئے 14 جون کو خون کا عطیہ دینے والوں کا حق ہے کہ وہ جوش و خروش سے یہ دن منائیں۔ یہ دن دنیا کے مقابلے میں پاکستانی عوام کو زیادہ جوش و جذبے سے منانا چاہیے کیونکہ انہوں نے اپنا خون دیکر حکمران اشرافیہ کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ مہنگائی کے ذریعے حکمرانوں نے قوم کے خون کا ایک ایک قطرہ نچوڑ لیا ہے‘ مگر انکی اس پر بھی تشفی نہیں ہو رہی‘ کبھی پٹرول‘ کبھی بجلی‘ کبھی لیوی‘ فیول ایڈجسٹمنٹ اور کبھی گیس و ادویات کے نرخ بڑھا کر انکی ناتواں ہڈیوں سے گودا تک نکالنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو خون کا عطیہ دینے میں پاکستانی قوم پوری دنیا پر سبقت لے گئی ہے۔ عالمی سطح پر ایک دن ”برداشت“ کا بھی منایا جاتا ہے۔ الحمدللہ! صبر و برداشت کا مظاہرہ کرنے میں بھی پاکستانی قوم کا کوئی ثانی نہیں۔ یہ قوم کی قوت برداشت ہی تو ہے کہ حکمرانوں کی جانب سے مسلط کی گئی بدترین مہنگائی کو سہا جارہا ہے اور اف تک نہیں کی جا رہی اور اسکے صبر کا پیمانہ بھی لبریز نہیں ہو رہا۔ ہمارے اقتصادی ماہرین کی پالیسیوں کے نتیجہ میں قوم مہنگائی کی بھٹی میں جل کر کندن بن چکی ہے۔ اب ہر قسم کے حالات کے جبر کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کر سکتی ہے۔ شاعر نے شاید ایسے ہی حکمرانوں کیلئے عوام کی جانب سے کہا ہے....
ادھر آ ستمگر ہنر آزمائیں
تو تیر آزما‘ ہم جگر آزمائیں
٭....٭....٭
فیصل آباد میں ڈاکٹروں نے ٹانگ کے بجائے پتے اور پتے کی جگہ ٹانگ کا اپریشن کر دیا۔
ڈاکٹروں سے یہ غلطی اس لئے سرزد ہوئی کہ دونوں خواتین ہم نام تھیں‘ مگر مریضہ کی نشاندہی کے باوجود ڈاکٹر نے مریضہ کو ڈانٹ پلادی اور اس کا اپریشن کرڈالا۔ چند روز قبل یہ خبر بھی نظروں سے گزری تھی کہ ایک ڈاکٹر نے کسی مریض کی آنکھ کے بجائے اسکے بازو کا اپریشن کر ڈالا‘ پتہ اس وقت چلا جب مریض کو اپریشن تھیٹر سے باہر لایا گیا۔ پتہ نہیں ایسی غفلت والے واقعات ہمارے ہاں ہی کیوں پیش آتے ہیں۔ دوسرے ملکوں سے کبھی ایسی غفلت کی خبرسامنے نہیں آئی۔ اس لئے کہ وہاں نہ عطائی ہیں اور نہ انتظامیہ مریضوں کو ایسے ناتجربہ کار ڈاکٹروں کے حوالے کرتی ہے۔ بے شک ان دونوں خواتین کے نام ایک جیسے تھے‘ مگر علاج اور اپریشن سے پہلے مریض کی پوری ہسٹری تیار کی جاتی ہے اور وہ ہسٹری اپریشن کے وقت فائل کی صورت میں مریض کے ساتھ سرجن کے حوالے کی جاتی ہے کہ اس کا یہ مسئلہ ہے۔ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ مریضہ کے بتانے کے باوجود ڈاکٹر نے اسکی ایک نہ سنی اور اس کا پتے کے بجائے ٹانگ کھول ڈالی۔ یہاں کچھ غلطی مریضہ کی بھی ہے‘ جب ڈاکٹر پتے کے بجائے اسکی ٹانگ کاٹنے پر مصر تھا تو اسے سٹریچر سے اٹھ کر اپریشن تھیٹر سے باہر آجانا چاہیے تھا۔ مگر وہ بے چاری ڈاکٹر کی ڈانٹ کھا کر خاموشی سے اپنی صحت مند ٹانگ کٹوانے پر راضی ہو گئی۔ اس غفلت اور نااہلی پرڈاکٹر کیخلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے اور محکمہ صحت کو سزا کے طور پر اسکی ڈگری منسوخ کر دینی چاہیے۔ ورنہ آگے چل کر یہ ڈاکٹر صاحب نہ جانے کتنوں کی آنکھ کے بجائے ٹانگ اور ہاتھ کی جگہ گلا کاٹ دینگے۔ افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ بھاری فیس بھرنے کے باوجود دونوں مریضاﺅں کے مسئلے جوں کے توں ہیں مگر ڈاکٹر صاحب اپنی فیس کھری کر چکے۔
٭....٭....٭
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ 20 جون تک فیصلہ ہو جائیگا کہ سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
سیاسی میدان کے ”منے پرمنے“ (مشہور) سیاست دان‘ تجزیہ کار اور پیش گوئی کرنے والے جناب شیخ صاحب نے 20 جون تک سیاسی اونٹ کے کسی نہ کسی کروٹ بیٹھنے کی پیش گوئی کردی ہے‘ یہ الگ بات ہے کہ انکے اب تک کئے گئے تجزیے اور پیش گوئیاں آج تک پوری ہوتی دکھائی نہیں دیں۔ چلیں اب بیس جون کا انتظار کرلیتے ہیں۔ سیاسی حالات جس نہج پر پہنچے نظر آرہے ہیں‘ 20 جون کیا‘ جولائی اگست تک سیاسی اونٹ بیٹھتا نظر نہیں آرہا۔ ہاں اگر انتخابات کی متفقہ تاریخ طے کرلی جائے تو اونٹ اسی دن بیٹھ سکتا ہے۔ شیخ صاحب سیاست میں رونقیں لگائے رکھتے ہیں۔ سیاسی میدان میں ان کا وجود اسی طرح رنگ بھرے ہوئے ہے جس طرح خواتین کے بارے میں اقبال نے فرمایا ہے:
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
وہ جس محفل‘ ٹاک شو اور جس کانفرنس میں بیٹھتے ہیں‘ میلہ لوٹ لیتے ہیں۔ وہ اپنی پارٹی کے پلیٹ فارم سے شاید ہی کبھی کامیابی حاصل کر پائے ہوں‘ البتہ دوسری جماعتوں کے پلیٹ فارموں سے انکی قسمت کا ستارہ خوب چمکتا رہتا ہے۔ وہ اب سیاست سے زیادہ تجزیے اور پیش گوئیوں پر گزارا کر رہے ہیں تاکہ خبروں میں زندہ رہ سکیں۔ دعا ہے کہ وہ ملکی سیاست میں رونقیں لگائے رکھیں اور اسی طرح عوام کو اپنے تجزیوں اور پیش گوئیوں سے محظوظ کرتے رہیں۔ کرسی کا کیا ہے‘ وہ تو آنے جانے والی چیز ہے۔ وہ وزیراعظم بنے بغیر ہی کافی شہرت کے حامل ہیں۔