
پاکستان کی معاشی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ پاکستان نے 1950ءسے 1990ءکے دوران 40 سال قابل ستائش ترقی کی حالانکہ آزادی کے بعد پاکستان میں صنعت پسماندہ تھی۔ لاکھوں مہاجرین کا بوجھ پاکستان کو برداشت کرنا پڑا۔ 1965ءاور 1971ءکی جنگوں نے پاکستان کی معیشت کو متاثر کیا۔ 1980ءکی دہائی میں پاکستان نے امریکا کی افغان وار لڑی۔ بھٹو دور میں کلیدی صنعتوں کو نیشنلائز کیا گیا۔ ان تمام مشکلات کے باوجود پاکستان کی گروتھ بھارت سے آگے تھی جو اوسط 6 فیصد رہی۔ اس معاشی کامیابی کی بنیادی وجہ فعال ریاستی ادارے اور معیاری گورننس تھی۔ ریاستی اداروں پی آئی ڈی سی، پی آئی سی آئی سی، آئی ڈی پی پی اور اے ڈی سی نے پاکستان کی زرعی اور صنعتی ترقی میں قابل رشک کردار ادا کیا۔ واپڈا نے دو بڑے ڈیم منگلا اور تربیلا تعمیر کیے۔
پلاننگ کمیشن نے بیرونی یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ ماہرین کو میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پر ریاستی اداروں کا سربراہ بنایا جنھوں نے معیشت کی ترقی میں شاندار کارنامے انجام دیے۔ پی آئی اے دنیا کی لیڈنگ ائیر لائن تھی جس کے ماہرین نے سنگاپور ایئرلائنز اور ایمریٹس ائیرلائن کی تشکیل میں رہنمائی اور معاونت کی۔ افسوس آج پی آئی اے زوال پذیر ہو چکی ہے۔ ماضی میں سول سرونٹس کو میرٹ پر نامزد کیا جاتا ان کو ذمہ داری اور اتھارٹی دی جاتی اور ان کا احتساب کیا جاتا۔ پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہتا اور کرپشن کو کنٹرول کیا جاتا۔ 1988ءسے 1999ءتک 8 حکومتیں تبدیل ہوئیں اور 4 عام انتخابات کرائے گئے۔ کمزور حکومتیں معیشت کے سلسلے میں بر وقت دلیرانہ فیصلے نہ لے سکیں اور اپنا اقتدار بچانے میں مصروف رہیں۔ 2002ءسے 2007ءتک جنرل پرویز مشرف کے دور میں معاشی ترقی ہوئی۔ ٹیکس ریونیو تین گنا بڑھ گیا۔ برآمدات دوگنا ہو گئیں۔ کرنٹ اکاو¿نٹ خسارہ کنٹرول میں رہا۔ گروتھ کی شرح 7 فیصد رہی۔ مقامی حکومتوں کو مضبوط اور مستحکم بنایا گیا عوام کے مقامی مسائل ان کے گھر کی دہلیز پر حل ہوتے رہے۔
2008ءسے 2023ءتک معاشی ابتری کے سال رہے۔ بنگلہ دیش، سری لنکا اور انڈیا معاشی حوالے سے پاکستان سے آگے نکل گئے۔ اس عرصے کے دوران کرپشن اور منی لانڈرنگ کے میگا سکینڈلز منظر عام پر آئے۔ معاشی گروتھ کی رفتار سست رہی۔ منصوبے غیر معمولی تاخیر کا شکار ہوئے۔ اقربا پروری اور سیاسی مفاد کے کلچر نے معاشی ترقی کو زوال پذیر کر دیا۔ پاکستان پر اندرونی اور بیرونی قرضوں کا حجم تشویش ناک حد تک بڑھ گیا۔ غربت اور بےروزگاری میں اضافہ ہوا۔ ٹیکس نیٹ وسیع نہ کیا جا سکا۔ خاندان امیر ہوگئے اور پاکستان غریب ہو گیا۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی۔ پاکستان کے تمام معاشی اور انتظامی انڈیکیٹرز دنیا کے مقابلے میں بہت نیچے چلے گئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دس کروڑ شہری غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ احتساب کے ادارے کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا گیا۔ ریاست تسلسل کے ساتھ عدم استحکام کا شکار رہی۔ بلدیاتی انتخابات کو بری طرح نظر انداز کیا گیا۔ پالیسیوں کا تسلسل جاری نہ رکھا جا سکا 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو اختیارات منتقل کرنے کے بعد بھی وفاقی حکومت کے محکمے اور اخراجات کم نہ کیے گئے۔ جن ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے سفارشات تیار کی گئیں ان پر عمل درآمد نہ کیا جا سکا۔سٹیٹ بنک کے سابق گورنر اور پاکستان کے نامور اکانومسٹ اور ٹیکنو کریٹ عشرت حسین کی نئی کتاب گزشتہ ماہ’پاکستان اکنامک چیلنجز اینڈ سلوشنز‘ کے نام سے وین گارڈ بکس لاہور نے شائع کی ہے۔ اس کتاب میں عشرت حسین نے پاکستان کے معاشی مسائل کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور وے فارورڈ بھی بتایا ہے۔ کاش مقتدر حلقے ان کی اس منفرد تحقیق سے فایدہ اٹھا کر پاکستان کو دیوالیہ پن سے باہر نکال سکیں۔اس کتاب میں مارکیٹ سوسائٹی اور اکانومی پر چشم کشا باب شامل ہے جس میں سماج کے ان عوامل کو بے نقاب کیا گیا ہے جو معاشی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔ عشرت حسین نے اپنی کتاب میں معاشی بحران کو حل کرنے کے لیے بنیادی اصول بتائے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں ریاست کو اپنے شہریوں کو معیاری بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لیے گورننس سسٹم کو مضبوط اور مستحکم بنانا ہوگا۔ غریب عوام کو ٹارگٹ کرکے اور ان کے لیے مخصوص پالیسی وضع کرکے انھیں غربت کی لکیر سے باہر نکالنا ہوگا، جیسے چین نے غربت کا مسئلہ بڑی کامرانی کے ساتھ حل کیا ۔ ہمیں سائنس، ٹیکنالوجی اور ہیومن ریسورس میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ برآمدات کے میں اضافے کے لیے خصوصی اور ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ مقامی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے ہمیں بیرونی قرضوں کے بوجھ کو کم کرنا پڑے گا۔ اکنامک سسٹم کو شراکتی بنانا ہوگا اور سمال اور میڈیم سائز کی صنعتوں پر توجہ دینی ہوگی۔خارجہ پالیسی کو جیو اکنامکس کے اصول پر آگے بڑھنا ہوگا۔ آبادی میں میں تشویش ناک اضافہ کو روکنے کے لیے اور ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ نقصان پر چلنے والے ریاستی اداروں اور کارپوریشنوں کی شفاف نجکاری کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے پڑیں گے۔
پاکستان میں کرپشن کینسر کی طرح پھیل چکی ہے جس نے ہماری آزادی اور سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ یکساں احتساب کے لیے ایک ایسا قابل اعتبار ادارہ بنانا ہوگا جو سیاستدانوں، جرنیلوں، ججوں اور بیوروکریٹس کا کڑا احتساب کر سکے۔ عشرت حسین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں، ٹیکنوکریٹس کی حکومت پاکستان کے سیاسی اور معاشی مسائل حل نہیں کر سکتی۔ مسائل کے حل کے لیے عوام کی سیاسی تائید اور حمایت لازم ہے۔ یہ رائے درست ہے البتہ پاکستان کے سیاسی ماڈل کو حقیقی معنوں میں عوامی اور جمہوری بنانے کی ضرورت ہے۔ ایسا جمہوری نظام جس میں عوام کی شرکت نہ ہو صرف سیاسی خاندانوں کے مفادات کا تحفظ کر سکتا ہے جبکہ عوام کی اکثریت اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہی رہتی ہے۔ انتخابی سیاسی نظام میں عوام کی شرکت کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ بلدیاتی انتخابات اور مقامی حکومتوں کے ذریعے ہی عوام کو مقتدر اور سٹیک ہولڈرز بنایا جا سکتا ہے۔ عشرت حسین کی سربراہی میں ٹاسک فورس نے اصلاحات کا جو پیکیج تیار کیا تھا جس کی منظوری وفاقی کابینہ نے دے دی تھی ان پر عمل درآمد کیا جاتا تو آج پاکستان معاشی اور انتظامی حوالے سے بہت بہتر حالت میں ہوتا۔