
باس نے لطیفہ سنایا تو سب زور زور سے قہقہے لگانے لگے۔ لیکن ایک شخص بالکل نہیں ہنسا، مسکرایا تک نہیں۔ کسی نے پوچھا باس کے لطیفے پر تم کیوں نہیں ہنس رہے اس نے جواب دیا،میں نے نوکری چھوڑ دی ہے۔ اسے ہم لطیفہ تو کہہ سکتے ہیں لیکن باس کے بے تکے مزاح پر لوٹ پوٹ ہوکر دکھانے والے تو ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔کہتے ہیں ہمیشہ مخلص لوگ تلاش کرو مطلبی تو خود تمہیں تلاش کرلیتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مطلبی اور خوشامدی نہ صرف تلاش کر لیتے ہیں بلکہ کامیابی سے اپنا آلو سیدھا کرکے چلتے بنتے ہیں۔ شاید یہ خوشامد چیز ہی ایسی ہے۔ مطلبی اور خوشامدی ہمیشہ طاقت کے پیچھے جاتے ہیں۔ جس کے پاس طاقت اس کے پیچھے واہ واہ کرتے جاپہنچے، طاقت چاہے پیسے کی ہو یا اختیار کی۔
سیاست میں بھی کچھ ایسا ہی ہے بلکہ یہاں تو خوشامدیوں کی ریل پیل لگی رہتی ہے اختیار ملتے ہی خوشامدی گھیرا ڈال لیتے ہیں۔ ہمارے کئی سیاستدانوں نے ایسے ہی خوشامدیوں کی وجہ سے نقصان بھی اٹھایا کسی وزیر اعظم کو چند پیاروں کی کچن کیبنٹ اور کسی کو تعریفیں کرنے والے صحافیوں کا ہیلی کاپٹر گروپ لے ڈوبا اور یہ جہاں دیدہ سیاستدان بار بار ایسے ہی واہ واہ کے چکروں میں آجاتے رہے، کیا کریں خوشامد چیز ہی ایسی ہے۔ ہمارے سابق وزیر اعظم خان صاحب کے ایک سابق قریبی ساتھی بتاتے ہیں کہ ایک بار ایک سفر کے دوران خان صاحب نے کہا کہ دس لوگوں کے نام لکھو انہیں تو میں وزیر اعظم بنتے ہی پھانسی لگواو¿ں گا لیکن بعد میں کیا ہوا خان صاحب وزیر اعظم بن گئے اور ان کی پھانسی والی فہرست کا سرفہرست شخص ان کا قریبی دوست بن گیا۔ کیونکہ خوشامد چیز ہی ایسی ہے۔ بڑوں بڑوں کو بڑا بڑا کچھ بھلا دیتی ہے۔ لیکن پھر ہوتا کیا ہے۔ یہ خوشامدی اس قدر گھیرا تنگ رکھتے ہیں کہ اس شخصیت کو دنیا سے الگ کر کے اپنی ہی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ اسے اس کی اہمیت کا حد سے اس قدر زیادہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ کہیں سے کہیں نکل جاتا ہے۔
یہ ایک تیسری دنیا کے دیوالیہ پن کی حد کو چھونے کے قریب ،معاشی تنگدستی کا شکار ملک کے سربراہ کو تیل کی دولت سے مالا مال امیر ترین مسلم ملکوں پر مشتمل امت مسلمہ کا لیڈر بنا ڈالتے ہیں اور وہ مان لیتا ہے۔ یہ اسے باور کراتے ہیں کہ دنیا کا طاقتور ترین شخص امریکی صدر بھی خود کو آپ کے سامنے کمزور سمجھنے لگا ہے۔ اور وہ مان لیتا ہے۔ یہ اسے بتاتے ہیں کہ ملکی حالات پر عوام کی پریشانی صرف میڈیا پر دکھائی جارہی ہے۔ معیشت تو اوپر جارہی ہے، ہم تو سستا ترین ملک بن گئے ہیں، قوم تو آپ کو جھولیاں اٹھا کر دعائیں دے رہی ہے۔ اور وہ مان لیتا ہے۔ وہ اسے باور کراتے ہیں کہ مخالفین میں کوئی دم خم نہیں، آپ کی سرکار کو کوئی ہلا تک نہیں سکتا آپ کے اقتدار کا سورج تو پوری دہائی ایسے ہی چمکتا رہے گا اور وہ مان لیتا ہے۔ وہ اسے ملک کا مقبول ترین ہونے کے ناطے طاقتور ترین رہنما بنا کر پیش کرتے ہیں وہ مان لیتا ہے وہ اسے ریاست سے بھی اوپر کی چیز بنا کر پیش کرتے ہیں، پھر اس کے ریاستی اداروں سے براہ راست ٹکراو کے نظریے کو واہ واہ کرکے داد دیتے ہیں اور اسے طاقتور ترین اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑا ہوجائے والا واحد لیڈر بنا کر ہیش کرتے ہیں جس کا نام تاریخ میں لکھا جائے گا۔ اور وہ مانتا چلا جاتا ہے۔ خوشامد چیز ہی ایسی ہے۔ اور پھر وہ ریاستی اداروں سے ٹکرا جاتا ہے۔ اور جب مڑ کر پیچھے دیکھتا ہے تو واہ واہ کرنے والے ایک ایک کر کے پتلی گلی سے نکل رہے ہوتے ہیں۔ اور وہ ٹی وی ہر آکر اپنے اکیلے رہ جانے کا رونا رونے لگتا ہے۔ یہ کسی ایک لیڈر کی کہانی نہیں، کئی ایسے خوشامدیوں کی لپیٹ میں آکر اپنی لٹیا ڈبو دیتے ہیں۔ درحقیقت یہ خوشامدی اسے واہ واہ اور بلے بلے کی لت لگا کر زمینی حقائق سے دور لے جاتے ہیں۔ قدم بڑھاو¿ ہم تمہارے ساتھ ہیں کے نعرے سن کر جب وہ قدم بڑھاتے ہیں تو پیچھے خالی میدان دکھائی دیتا ہے۔ ہماری سیاست پر نظر ڈالیں تو سب کو یہ خوشامدی دکھائے دیں گے۔
یہ ہر حکومت اور ہر حکمران کے قریب ہوجاتے ہیں اس کے لئے آخری حد تک جانے کو تیار ہوجاتے ہیں لیکن صرف باتوں کی حد تک۔ اور جب مشکل وقت آجائے تو پھر انہیں بھاگتے ہوئے زمانہ دیکھتا ہے لیکن حیرت تب ہوتی ہے جب یہ پھر نئے حکمران کی فوج کے صف اوّل کے جان دینے کو تیار سپاہی بن کر سامنے آجاتے ہیں۔ لیکن حیرت بھی کیسی۔ خوشامد چیز ہی ایسی ہے۔