کہتا ہوںسچ کہ جھوٹ کی عادت نہیںمجھے ۔۔مگر
’’کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیںمجھے‘‘ یہ قول پاکستانی سیاست میں کچھ اسطرح ہوگیا ’’اتنا جھوٹ بولو کہ سچ کا گمان ہو۔ ہمارے ملک کی سیاست میں یہ کام گزشتہ تین سالوںمیں کچھ زیادہ ہورہا ہے ، سیاست ویسے ہی بدنام ہو چلی ہے اگرعام زندگی میںکوئی وعدہ خلافی کرے یا جھوٹ بولے تو یہ کہا جاتا ہے ’’ یار ہمارے ساتھ سیاست نہ کرو‘‘ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے سیاست کو کس نظر دیکھا جانے لگا ہے۔ حز ب اختلاف ا ورحکومتی اراکین میں جھوٹ بولنے کا مقابلہ نظر آتاہے جس بناء پر ’’عوامی نمائندگا ن کے اس معتبر ایوان کی کاروائی ’’ٹھپ ‘‘پڑی ہے جہاں عوامی فلاح و بہبود کے معاملے پر بات نہیں ہوتی اگر غلطی سے ہوبھی جائے تو افہام و تفہیم کے بجائے وہاںمچھلی بازار بن جاتا ہے اور کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیںہوتا ایسی صورتحال میں وہ اراکین جو electableکہلاتے ہیں وہ کسی نظر یہ سے بالاتر ہوتے ہیں ہر آنے والی حکومت میں شامل ہونا اپنا حق تصور کرتے ہیں اور ہر حکومت بھی اپنے حکومتی امور چلانے ، اقتدار کو قائم رکھنے کیلئے انکی مرہون منت ہوتی ہے پاکستانی سیاسی کی پارلیمانی تاریخ میں شاید ہی وہ خوش آئند دور آیا ہو جب یہ electables حکومت کا حصہ نہ بنے ہوں۔ یہی لوگ حکومت کی تباہی و ناکامی کا سبب بنتے ہیںجب حکومت کو ایوان میںکسی معاملے پر اراکین کی رائے یا ووٹ مطلوب ہوتی ہے تو یہ لوگ اپنے سینوںپر اپنی قیمت لگا کر میدان میں آجاتے ہیں۔ماضی قریب میں اسکا مظاہرہ سینٹ کے چیئرمین اور سینٹ کے قائد حزب اختلاف کے چنائو کے وقت عوا م نے اوربیرونی دنیا میںمبصرین نے دیکھا ، اہم بات یہ ہے کہ ایسے اراکین کی تمام تر توجہ اس طرف ہوتی ہے کہ انتخاب میںخرچ کئے گئے بھاری اخراجات کو سود سمیت کیسے واپس لیا جائے اسی خرید فروخت کی وجہ سے حکومتی امور چلانا مشکل ہوجاتا ہے ، اس وقت ایک مرتبہ پھر حکومت تذبذب کا شکارہے کیونکہ یہ موقع بہت جلد بجٹ کی منظوری ، اور خاص طور پر حالیہ وزیر خزانہ شوکت ترین کی وزارت کو قانونی شکل فراہم کرنے کیلئے سینٹ کا رکن بنانے کے انتخابات کی طرف جانا پڑے گا مگر حکومت کو پریشانی ہے کہ انکا انجام بھی حفیظ شیخ سابق وزیر خزانہ جیسا نہ ہو، حکومت کو اس دفعہ مشکلات کا سامنا ٹوٹی پھوٹی حزب اختلاف سے نہیں بلکہ اپنی جماعت کے اراکین و اتحادیوں سے ہوگا چونکہ یوسف رضا گیلانی کی قائد حزب اختلاف کی نشست جو حکومتی اراکین کی ایماء پر انہیںملی پی پی پی اپنا حصہ لے چکی ہے، اب یہی صورتحال بجٹ کی منظوری کی وقت بھی پیش ہوگی۔دنیا میں ہر ملک میں حکومت اور اپوزیشن ہوتی ہیں، ان کے آپس میں اختلافات بھی فطری ہیں لیکن مہذب جمہوری ممالک اور پسماندہ ممالک میں فرق یہ ہے کہ وہاں حکومت خارجہ پالیسی اور مالیاتی پالیسی سمیت ہر اہم ریاستی معاملے پر اپوزیشن سے ڈائیلاگ کرتی ہے، قانون سازی کے معاملے میں تو حکومت اور اپوزیشن میں مسلسل تعاون اور مشورہ جاری رہتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن آپس میں بات تک کرنے کو تیار نہیں۔ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ہم اپوزیشن سے بات کرتے ہیں تو وہ این آر او مانگتے ہیں پوزیشن یہ کہتی ہے کہ ایک طرف یہ ہمیں جیلوں میں ڈال رہے ہیں دوسری طرف ہم سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ یہ دو عملی کیوں؟ حکومت کچھ عرصے سے قانون سازی پر مذاکرات کرنا چاہتی ہے لیکن اپوزیشن کو ماضی میں ایسے تلخ تجربات ہو چکے ہیں کہ وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنے کو تیار نہیں۔آنے والے بجٹ کے وقت بھی ایوان میں سنجیدگی ناپیدہوگی، اور صرف شور شرابے سے ہی سے عوام مستفید ہوسکیںگے ،پی ٹی آئی اپنے انتخابی بیانات کی طرح عوام کو بجٹ میں سبز باغ دکھانے کے درپے ہے ، اور اس میںوزیر خزانہ شوکت ترین بھی شامل ہوچکے ہیں جو وزیر بننے سے قبل موجودہ حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کے نقاد تھے اور مخالفت کرتے تھے ، گزشتہ وزیرخزانہ حفیظ شیخ کی طرح موجودہ وزیر خزانہ شوکت ترین بھی نیب زدہ ہیں اور آج حکومتی اقتصادی پالیسیوں کی تعریف کررہے ہیں، یہ سوال اپنی جگہ اگر آج معیشت الحمداللہ بہتر ہے تو یہ کارنامہ حفیظ شیخ سابق وزیرخزانہ کا ہے۔ اللہ سے دعا یہ ہے کہ معیشت کی بہتری کے حکومتی دعوے صحیح ہوں ،اور بجٹ میں عوام پر مزید پہاڑ نہ ٹوٹیں، گو ابھی پاکستان میں معیشت بہتر ہو رہی ہے لیکن سیاست کے فرنٹ پر فی الحال بہتری کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ اگر ملک کی مجموعی صورتحال میں بہتری لانی ہے تو پھر سیاست اور معیشت سمیت تمام محاذوں پر بہتری لانا پڑے گی۔