ابلیس کا اعتراف اور وقت قیامت
انسانی فطرت میں خودنمائی اور خود پرستی کا عنصر ایک ایسا بھوت ہے جو ہر وقت اس کے دماغ پر سوار رہتا ہے اور یہ اسی طبع کا شاخسانہ ہوتا ہے کہ وہ اکڑ کسی دوسرے کے کام یا اسکی تخلیق کو سراہنے میں بہت بْخل سے کام لیتا ہے لیکن انسان کی خودنمائی یا ستائش کی اس خصلت کے ہوتے ہوئے بھی بسااوقات اسکے سامنے ایسے ایسے لاجواب شاہکار آ جاتے ہیں کہ انکے سامنے انسان کا بخل بھی ہتھیار ڈال دیتا ہے اور وہ اس پر داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
آج کالم لکھنے بیٹھا تو بچپن سے دھوپ چھاؤں کی طرح ساتھ رہنے والے دوست ڈاکٹر ارشد مجید کی طرف سے ایک وٹس ایپ میسج موصول ہوا جس میں انہوں نے راحیل فاروق صاحب کی آواز میں ایک نظم بھیجی ہے جس کو سننے کے بعد اسکی داد دینا تو الگ بات میرے ذہن میں آج کے کالم کے متعلق جو بھی مواد اور اسکا خاکہ تھا وہ سب ہوا میں کچھ اس طرح تحلیل ہوا کہ مضمون تو کیا اسکے نقش بھی دور دور تک نظر نہیں آ رہے کیونکہ میری ناقص رائے میں اس سے بہتر کوئی اور چیز ہو ہی نہیں سکتی جو میں اپنے قارئین سے شئیر کر سکوں۔ یہ کلام جو منقول کرنے جا رہا ہوں اسکے بارے صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جس دور اور جن کیفیات سے ہم گزر رہے ہیں شائد ہی اس سے بہتر انکی منظر کشی ہو سکے۔ راقم اس پر اس سے زیادہ ایک لفظ بھی نہیں کہے گا باقی فیصلہ ہر اس قاری نے کرنا ہے جس نے اسکو پڑھنا ہے۔ کلام حاضر ہے…؎
"تو نے جس وقت یہ انسان بنایا یا رب
اْس گھڑی مجھ کو تو اِک آنکھ نہ بھایا یارب
اس لیے میں نے، سر اپنا نہ جھکایا یارب
لیکن اب پلٹی ہے کچھ ایسی ہی کایا یا رب
عقل مندی ہے اسی میں کہ میں توبہ کر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں!
ابتداً تھی بہت نرم طبیعت اس کی
قلب و جاں پاک تھے،شفاف تھی طینت اس کی
پھر بتدریج بدلنے لگی خصلیت اس کی
اب تو خود مجھ پہ مسلط ہے شرارت اس کی
اس سے پہلے کہ میں اپنا ہی تماشا کر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں!
بھر دیا تْو نے بھلا کون سا فتنہ اس میں
پکتا رہتا ہے ہمیشہ کوئی لاوا اس میں
اِک اِک سانس ہے اب صورتِ شعلہ اس میں
آگ موجود تھی کیا مجھ سے زیادہ اس میں
اپنا آتش کدہ ذات ہی ٹھنڈا کر لوں !
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں !
اب تو یہ خون کے بھی رشتوں سے اکڑ جاتا ہے
باپ سے ، بھائی سے، بیٹے سے بھی لڑ جاتا ہے
جب کبھی طیش میں ہتھے سے اُوکھڑ جاتا ہے
خود مِرے شر کا توازن بھی بِگڑ جاتا ہے
اب تو لازم ہے کہ میں خود کو سیدھا کر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں!
میری نظروں میں تو بس مٹی کا مادھو تھا بَشر
میں سمجھتا تھا اسے خود سے بہت ہی کمتر
مجھ پہ پہلے نہ کھْلے اس کے سیاسی جوہر
کان میرے بھی کْترتا ہے یہ قائد بن کر
شیطانیت چھوڑ کے میں بھی یہی دھندا کر لْوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں!
جِھجکتا ہے ، نہ ڈرتا ہے ،نہ شرماتا ہے
نِت نئی فتنہ گری روز ہی دکھلاتا ہے
اب یہ ظالم ، میرے بہکاوے میں کب آتا ہے
میں بْرا سوچتا رہتا ہوں ، یہ کر جاتا ہے
کیا ابھی اس کی مْریدی کا ارادہ کر لوں!
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں!
اب جگہ کوئی نہیں میرے لیے دھرتی پر
مِرے شر سے بھی سِوا ہے یہاں انسان کا شر
اب تو لگتا ہے یہی فیصلہ مْجھ کو بہتر
اس سے پہلے کہ پہنچ جائے وہاں سپر پاور
میں کسی اور ہی سیّارہ پر قبضہ کر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں!
ظْلم کے دام بچھائے ہیں نرالے اس نے
نِت نئے پیچ مذاہب میں ڈالے اِس نے
کر دیئے قید اندھیروں میں اجالے اس نے
کام جتنے تھے مِرے ، سارے سنبھالے اس نے
اب تو میں خود کو ہر اِک بوجھ سے ہلکا کر لوں سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لو"
قارئین میں لاجواب ہوں اور یہ وہ مقام ہے جہاں ہم میں سے ہر کسی کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہے کہ یہ بیوقت کی بے موسمی بارشیں یہ کورونا کی جان لیوا وباء یہ ٹڈی دَل کی یلغار کیا یہ سب ہمارے ان اعمال کا ہی نتیجہ ہے جسکا ذکر انسان کے بارے ابلیس رَب سے کر رہا ہے۔ افسوس ابلیس بھی تائب ہونے کی سوچ رہا ہے اور احکامِ خداوندی کی پیروی کی سوچ رہا ہے اور ایک ہم ہیں کہ اپنی خْو پر اکڑ رہے ہیں اور ہر وہ کام کر رہے ہیں جس سے خْدا نے ہمیں منع کیا ہے۔ شائد یہی وقت قیامت ہے۔
٭…٭…٭