پیر ‘ 6؍ شوال المکرم 1440ھ‘ 10؍ جون 2019ء
فردوس عاشق اعوان کا رانا ثنا اللہ کو
2 ارب روپے ہرجانے کا نوٹس
لیجئے ہنسی مذاق میں سیاسی گولہ باری پر اتنا بھی غصہ کوئی کرتا ہے۔ ہرجانے کا نوٹس دینا تھا تو فردوس عاشق اعوان اس بات پر رانا ثناء اللہ کو ہرجانے کا نوٹس بھجواتیں کہ سترا بہترا بابا مجھے باجی کہہ کر میری عمر کی ساکھ مجروح کر رہا ہے۔ اس لیے اس کو ہتک عزت پر 2 ارب کا ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا جائے۔ اس پر بہت سے لوگ بھی ان کی حمایت کرتے اور ہاں میں ہاں ملاتے مگر افسوس ایسا کچھ نہیں ہوا۔ فردوس عاشق صاحبہ کو غصہ یہ ہے کہ بابا ثناء اللہ نے ان کی این جی او پر سرکاری بسوں اور ادویات میں گڑ بڑ کا الزام لگایا ہے جو اس نیک نام سیاستدان کے لیے بڑا دھچکا ہے جو اب تک کئی پارٹیاں بدل کر تحریک انصاف میں شامل ہوئی ہیں اور زرداری حکومت کے بعد ایک مرتبہ پھر وزیر اطلاعات و نشریات کی مدار المہام بنی ہیں۔ اس نوٹس سے یہ بھی اندازہ ہو رہا ہے کہ باجی فردوس عاشق اعوان بھی بابا ثنا اللہ کو صرف چھیڑ رہی ہے۔ ورنہ سب جانتے ہیں کہ 2 ارب تو کیا وہ کسی کو پھوٹی کوڑی بھی نہ دیں اپنے پلے سے۔ وہ بھی اس وقت جب وہ بے روزگار ہیں۔ سیاستدان جب حکومت میں نہ ہوں تو بے روزگار ہی کہلاتے ہیں۔ اب اس وقت بابا جی بھی اسی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ اسی لیے تو کہہ رہے ہیں کہ باجی تو غصہ کر گئیں ہیں۔ دیکھتے ہیں یہ بابے اور باجی کی لڑائی کیا رنگ لاتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭
چاند مریخ کا حصہ ہے۔ صدر ٹرمپ
تاریخ ، جغرافیہ، سیاسیات ، اخلاقیات ، ہزلیات، انسانیات سے لے کر حیوانیات تک میں امریکی صدر ٹرمپ نے جو تخصیص حاصل کر رکھی ہے۔ اس میں کسی کو رتی بھر بھی شبہ نہیں مگر اب سائنسی میدان میں ان کی ثقہ رائے اور خاص الخاص تخصیص دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ وہ اس درجہ کے سائنس دان بھی ہیں کہ انہیں عالمی سطح پر اتنا بڑا انکشاف کرنے پر نوبل انعام عطا کیا جائے۔ ویسے بھی امریکہ اس وقت دنیا کی واحد سپرپاور ہے اور امریکی صدر پوری دنیا کے یک و تنہا ڈنڈا اٹھائے خدائی فوجدار۔ وہ چاہیں تو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ پوری دنیا امریکہ کا ہی حصہ ہے۔ اب یہ ان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ڈنڈے کی نوک پران تمام ممالک کو ایک بار پھر امریکہ میں شامل کر کے اس کا حصہ بنا دیں۔ چند ایک سر پھرے ممالک کے سوا کس میں ہمت ہے کہ وہ صاحب بہادر ٹرمپ کے فرمودات عالیہ کے سامنے اپنی آواز بلند کریں۔ اکثر ممالک تو
’’امن ہو یا جنگ امریکہ کے سنگ‘‘
کے نعرے لگا لگا کر اپنی حمایت کا اعلان کرتے پھریں گے۔ شکر ہے ابھی تک ٹرمپ صاحب کو عظیم فاتح اور سپہ سالار بننے کا خیال نہیں آیا اگر ایسا ہو گیا تو پھر لوگ ہٹلر، ہلاکو، چنگیز خان ، سکندر اور امیر تیمور کو بھول جائیں گے اور دنیا کا وہ حشر ہو گا جو خربوزوں کے کھیت کا گیڈر کے گھس جانے سے ہوتا ہے…
٭٭٭٭٭٭
بھارت کو کوڑیوں کے مول گلابی نمک کی فروخت
آج کل سوشل میڈیا پر کھیوڑہ سے نکلنے والے پتھر کے نمک کے حوالے سے ایک بحث شد و مد سے چل رہی ہے کہ پاکستان یہ قدرتی نمک کوڑیوں کے بھائو صرف 35 پیسے فی کلو کے حساب سے لاکھوں ٹن بھارت کو فروخت کرتا ہے۔ یہی قدرتی گلابی نمک بھارت خود 3174 روپے یعنی 19 یورو فی کلو کے حساب سے دنیا بھر میں فروخت کرتا ہے۔ اگر یہ معاملہ واقعی ایسا ہی ہے تو پھر کرپشن کرپشن کی رٹ لگانے والی حکومت فوراً ڈنڈا نہیں تلوار اٹھا کر اس عظیم الشان کرپشن کے منصوبے کو یک جنبش قلم ختم کر کے ملک کو نقصان پہنچانے والے افراد کی گردن اڑا دے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بھارت اس نمک سے سالانہ 129 ارب ڈالر کما رہا ہے اور ساتھ ہی پاکستان کے ساتھ کھلے عام نمک حرامی بھی کرتا رہتا ہے۔ اب حکومت پاکستان بھی بھارت کی نمک حرامی کے جواب میں اسے نمک کی سپلائی مکمل بند کر کے اس کا مزا چکھائے۔ اس وقت ہمارے ملک پر اگر 100 ارب ڈالر کا قرضہ ہے تو ایک سال یہ نمک خودحکومت عالمی منڈی میں فروخت کر کے 129 ارب ڈالر کمائے اور اپنا قرضہ ادا کرے۔ مراد سعید تو یہ قرضہ ابھی تک عالمی بنک کے منہ پر نہ مار سکے مگر ہمارا نمک یہ سب کچھ کرنے کی صلاحیت ضرور رکھتا ہے۔ اس طرح بھارت کو بھی اس کی نمک حرامی کا مزہ چکھایا جا سکے گا۔
٭٭٭٭٭٭
نعیم الحق کا وزراء کی طرف سے
پولیس سکواڈ ساتھ لیتے پھرنے پر برہمی
عجیب بات کرتے ہیں نعیم الحق بھی۔ بھائی بندہ وزیر ہو یا وی آئی پی۔ اس کا پروٹوکول نہ ہو۔ آگے پیچھے گارڈ نہ ہوں تو کیا فائدہ اس وزیری کا۔ وزارت کا سارا حسن اور نشہ تو اسی ٹوں ٹوں والی گاڑیوں اور اس میں سوار وحشتناک قسم کے گارڈز کا ہوتا ہے۔ ورنہ کیا پتہ چلے گا کہ کون جا رہا ہے۔ ویسے سچ کیں تو جب یہ سکیورٹی گارڈز کے حصار میں ٹوں ٹوں والی گاڑیاں جا رہی ہوتی ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے کسی بڑے مجرم کو جیل سے لایا یا لے جایا جا رہا ہے۔ آج کل تو ہر عام و خاص نے گاڑی یوں رکھی ہوئی ہے جیسے کسی زمانے میں رستم و سہراب کی سائیکل رکھی ہوتی تھی۔ پھر جب ملاوٹ اور کرپشن نے عروج پایا تو گاڑیاں عام ہو گئیں۔ یہی حال سیاست، اخلاقیات اور کاروبار میں دو نمبری اور ملاوٹ کرنے والوں کا بھی ہوا۔ اچھے سیاستدان، بیورو کریٹ ، کرپشن کی منہ زور آندھی میں نجانے کہاں اڑ گئے۔ باقی جو رہ گئے ان کوعزت کروانے کے لیے موٹر والی گاڑی اور گارڈز کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں اب کسی کی کوئی عزت نہیں کرتا۔ پولیس کا کام عوام کی حفاظت کرنا ہے۔ مگر ہمارے وزرا ان سے اپنی حفاظت کا کام لیتے ہیں۔ عوام کو خدا کے آسرے پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ نعیم الحق کا یہ دکھڑا بجا ہے کہ وزرا اور مشیر سکواڈ کے جھرمٹ میں نکلنا چھوڑ دیں۔ یہ وی آئی پی نظر آنے کی بیماری اب سب کو لاحق ہو چکی ہے۔ اس کا بروقت علاج نہایت سخت سرجری سے ہی ممکن ہے اس لیے جبراً سب سے یہ پروٹوکول واپس لیا جائے صرف پرخطر حضرات کو ہی سکیورٹی دی جائے۔
٭٭٭٭٭٭