حکمران تھانیدار ہو سیکرٹری ہو انسپکٹر ہو یا وزیر امیج کارکردگی سے بنتا ہے نہ کہ تشہیر سے۔ تشہیر کے حوالے سے شہباز شریف نے جو ریکارڈ قائم کئے وہ اخبارات کی فائلوں اور میڈیا کی فلموں میں تاقیامت رہیں گے۔ امیج کام اور کارکردگی سے بنتا ہے۔ تھانوں میں تفتیش ہی سچی دیانتدارانہ اور بے غرضی پر مبنی ہو تو ہر کیس میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی الگ کر سکتی ہے۔ سنگل تفتیشی افسر کے بجائے تین رکنی تفتیشی ٹیم کا طریقہ اپنایا جائے۔ سارے کے سارے بے ضمیر اور رشوت خور نہیں ہو سکتے۔ تین میں سے ایک بھی باضمیر ہو گا وہ تفتیش میں ملاوٹ اور جھوٹ کی آمیزش نہیں ہونے دے گا۔ تفتیشی کے سامنے درجنوں لوگ بھی یوں بیٹھتے ہیں جیسے وہ ظلِ الٰہی ہو ۔ اس کے قلم سے لکھا ہوا ہر لفظ اور جملہ عدالت کے نزدیک صحیفۂ آسمانی سمجھا جاتا ہے۔ یہی وہ تھانہ کلچر ہے جسے آج تک کوئی نہ بدل سکا۔ ڈیڑھ دو سو سال پرانے فرنگیوں کے قانون آج بھی متفق علیہ احادیث کی طرح سمجھے جاتے ہیں۔ زمانہ کتنا بدل گیا کہ فہد چودھری کو رویت ہلال کمیٹی پر ماہانہ خرچ ہونے والے 40 لاکھ کھٹکنے لگے اور وہ اپنی وزارت کا قمری کیلنڈر لے آئے اور عید کے دن کا اعلان بھی کر ڈالا جبکہ شریعت چاند بارے عین الیقین کی بات کرتی ہے۔ آئی جی لاکھ دعوے کر لے پولیس اہل کاروں کی حرکتیں اس کے سارے دعوئوں پر پانی پھیر دیتی ہیں۔ مقدمہ قتل میں نامزد ملزموں کی تفتیش دو یا تین پھول والے سب انسپکٹر اور انسپکٹر کرتے ہیں۔ ایسے حساس مقدموں کی تفتیش ڈی ایس پی اور ایس پی اور فل انسپکٹر پر مشتمل 3 رکنی ٹیم ہو جو ملزموں کے بارے میں انکی رہائش ملازمت یا کاروباری جگہ پر خود جا کر بھیس بدل کر ان کے کرتوتوں کا پتہ چلائے جیسے لڑکی والے رشتے کیلئے خاموشی سے لڑکے کے بارے میں دو چار لوگوں سے اس کے بارے پوچھ گچھ کرتے ہیں۔ ریلوے میں 11 ہزار آسامیاں قرعہ اندازی سے پُر کی جائیں گی۔ یہ دنیا بھر میں سلیکشن کا نرالا طریقہ ہو گا۔ اس طرح تو قرعہ اندازی سے میرٹ کی تدفین ہو جائے گا۔ پھر یہی طریقہ ایم این اے ایم پی اے اور سینیٹر اور وزراء کے انتخاب کیلئے بھی اپنا لیا جائے تو کسی چھابڑی والے کی بھی قسمت جاگ سکتی ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں مندی 98 ارب ڈوب گئے۔ سی ای او مستعفی، ڈالر اوپر، بجلی مہنگی، پٹرول مہنگا کرنیکی تیاریاں، افغان ایران سرحد پر کرنسی سمگلنگ، بجلی 55 پیسے فی یونٹ مہنگی بلکتے سسکتے غریب عوام کو 5 ارب 20 کروڑ ڈالر کی 11 جون کو بجٹ کے اعلان سے پہلے سلامی۔ سپریم کورٹ کے ریمارکس 22 کروڑ عوام کی ترجمانی ہے کہ پولیس والے جعلی مقدمات سے پیسے بنانے کیلئے ہیں تمام تفتیشی افسروں کو ایک ماہ جیل بھجوانا پڑیگا۔ ایف آئی آر میں مدعی سے پولیس والے خود کہہ کر ملزموں کی تعداد زیادہ سے زیادہ کراتے ہیں تاکہ جتنے زیادہ 302 کے الزام کی زد میں آئینگے اتنا ہی مال بٹورا جائیگا۔ عدل کی ساری عمارت تفتیش پر کھڑی ہے جو بدقسمتی سے صالحین نہیں رشوت خوروں نے سر پر اٹھا رکھی ہے۔ اہل حکم کو تو اتنی فرصت نہیں کہ جھوٹے الزام میں ملوث ضمانتوں میں اور ضمانتوں کے بغیر رات دن تفتیشی افسروں کے کمروں میں سہمے بیٹھے ہوئے ہیں۔ سب کچھ لٹا کر مقروض اور کنگلے ہو جاتے ہیں۔ تب بھی بریت نہیں ہوتی۔ عزت سادات ویسے ہی خاک میں مل جاتی ہے جس تبدیلی کا اعلان تھا وہ آخر کیوں نہیں آئی ۔ دفاتر میں فائلوں کا نظام ذرا سا ٹس سے مس نہ ہوا۔ ہائر ایجوکیشن جیسے اہم ڈیپارٹمنٹ میں سیکرٹری ہر ماہ بدلے گا تو کیا پلاننگ کیا انسپکشن اور کیا تبدیلی آئیگی۔ جمعہ بازاروں کے دوروں سے اہل حکم کی تصویر اور خبر چھپ جاتی ہے۔ دکاندار اور ریڑھی والوں پر کیا اثر پڑتا ہے۔ ہر پھل اور ہر سبزی کی ریٹ لسٹ آویزاں کیوں نہیں کی جاتی جس طرح نائب قاصدوں کو پرنسپل روز جھاڑے کہ وہ کلاس روموں کی ڈسٹنگ کیوں نہیں کرتا وہ سنی ان سنی کرتا ڈھیٹ اور بے شرم ہو جاتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے صاحب اسے دو منٹ کڑوی کسیلی باتیں سُنا لے گا اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں کر سکتا زیادہ جلال میں آئیگا تو سارے چپڑاسی جمع ہو کر اسکے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو جائینگے اور بات آئی گئی ہو جائیگی۔
پنجاب میںڈاکٹروںکی تنخواہیں 15 سے 50 ہزار روپے بڑھائی جائیں گی ، دوسرے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصداضافے کی تجویز ہے۔ میثاق معیشت کا وقت ختم ۔سپریم کورٹ کے جسٹس فائز عیسیٰ تفتیشی افسروں سے اس قدر نالاں دکھائی دئیے کہ کہہ دیا ’’کیا معلوم کل کسی کے کہنے پر پولیس مجھے بھی ملزم بنا دے۔ سچ یہی ہے کہ ملزم کہنے اور بنانے میںزبان ہی تو ہلتی ہے۔ کوئی عورت اتنا ہی کہہ دے کہ یہ میرے پیچھے آ رہا تھا، مجے گھور رہا تھا وغیرہ اندھے کوکیا چاہئے دو آنکھیں۔ اسی طرح پولیس کو بھی صبح سے رات تک ملزموں کی تلاش ہوتی ہے جیسے قبرستانوں میں گورکن آس لگائے بیٹھا ہوتا ہے کہ کوئی قبر کھدوانے آ جائے قبر کھدے گی تو اس کی منہ مانگی دیہاڑی بنے گی۔ مدعی کے عدم اعتماد سے تفتیشی تو کیا سیشن جج تک بدل جاتا ہے۔ حمزہ شہباز کے عدم اعتماد سے ضمانت کی سماعت سننے والا پنج ٹوٹ گیا ۔ درخواست میں حمزہ نے موقف اختیار کیا ایف آئی آر میں نامزد نہیں تھا بدنیتی سے مجھے بھی ملزم ظاہر کردیا گیا۔ معاشرے میں اب عدم برداشت اور الزام تراشی کے سوا رہ کیا گیاہے۔ گھروں میں ساس بہو نندیں الزام تراشی کے ہاتھوں ایک دوسرے کے مرنے کی دعائیں کرتی ہیں۔ کالے علم والوں کے پاس کیوں بھاگتی ہیں وہ اپنی ایف آئی آر تھانوں میں نہیں بابوں اور جادو گروں کے ڈیروں پر درج کراتی ہیں۔ یہ بات سچ ہی تو ہے کہ ملک کو ایٹمی قوت بنانے والا ایک لیڈر پھانسی چڑھ گیا یا چڑھا دیا گیا دوسرا ملک بدر ہوا اور جیل میں ہے۔ فوج کو بدنام کرنے والا الطاف حسین منہ دکھانے کے قابل نہیں۔ اس کی ساری لیڈری زمین بوس ہو گئی اور اب منظور پشتین اور محسن داوڑ قبائل کے نام پر الطاف حسین بننے چلے لیکن اس کا انجام بھول گئے۔ ریاست ہو یا فوج رٹ کو چیلنج کرنے والا کوئی بھی ہو زمیں بوس ہو جائے گا۔ حقوق کی آواز اٹھانے کیلئے پارلیمنٹ کس لیے ہے ورنہ تو ہر کوئی جب اور جہاں چاہے بک بک کرتا پھرے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024