اتوار ‘ 25 رمضان المبارک ‘ 1439 ھ ‘ 10 جون 2018ء
شاہ محمود قریشی نے پنجاب کے اگلے وزیراعلیٰ ہونے کے نام پر الیکشن مہم شروع کردی
اب وقت کیا کرتا ہے کس کے سر پر ہما بیٹھتا ہے عوام کس کو ووٹ دیتے ہیں اگلا وزیراعظم اور وزراءاعلیٰ کون بنتے ہیں‘اس کا فیصلہ آنے والے الیکشن میں ہوگا۔ البتہ ہر امیدوار کو حق ہے کہ وہ پنجاب کی ”پگ“ اپنے سر باندھنے کا خواب دیکھے اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ شاہ محمود قریشی ہوں عبدالعلیم خان ہوں یا کوئی اور سب کی اپنی اپنی خواہش ہے اپنے اپنے خواب ہیں، کیا معلوم خسرو بختیار بھی پورے پنجاب پر حکمرانی کا خواب دیکھ رہے ہوں۔ جو مزا پورے پنجاب پر حکمرانی کا ہے وہ جنوبی صوبہ پنجاب میں کہاں آ سکتا ہے۔ شاہ محمود قریشی کا تعلق بھی ملتان سے ہے۔ انہیں بھی جنوبی صوبہ پنجاب بنانے میں بڑی دلچسپی ہے انہیں بھی اپنا ٹارگٹ جنوبی صوبہ رکھنا چاہئے نہ کہ تخت لاہور کیونکہ ملتان ہی شایدجنوبی پنجاب کا تخت بنے گا۔ یہ اچانک سب کو پورے پنجاب کی حکمرانی کا خواب کیوں آنے لگا ہے۔ یہ سمجھ سے باہر ہے فی الحال تو عبدالعلیم خان ہی تخت لاہور کی بات کریں تو وزن رکھتی ہے یا پھر گجرات، گوجرانوالہ سے کوئی اس کا دعویٰ کرے ۔یہ حضرات کیوں بھول رہے ہیں کہ ابھی مسلم لیگ (ن ) میدان میں باقی ہے بھولی بسریٰ داستان نہیں بنی۔ الیکشن کے بعد فیصلہ ہوگا کہ اس کا کتنا اثاثہ باقی بچا ہے۔ تخت لاہور پر اس کا حق حکمرانی کتنا ہوگا اس لئے شاہ محمود قریشی صاحب زیادہ جلد بازی کر رہے ہیں اور یقین دلا رہے ہیں کہ انہیں عمران خان کی حمایت حاصل ہے۔ اب معلوم نہیں وہ یہ یقین دہانی کسے کرا رہے ہیں۔ تخت لاہور والوں کو یا تخت ملتان پر نظر رکھنے والوں کو۔
٭....٭....٭
لندن میں جرائم پیشہ گینگوں نے آپس میں مک مکا کر لیا
باہمی دنگا فساد ہمیشہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔ اس بات کا ادراک لندن کے جرائم پیشہ افراد کو بالآخر ہو ہی گیا ہے۔ لندن جو برطانیہ کا دل ہے، دارالحکومت ہے وہاں زندگی نہایت خوبصورت ہے یہ مغربی تہذیب و ثقافت کا بھی مرکز ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ لاقانونیت میں بھی آگے آگے ہے۔ یہاں کم و بیش 250 بڑے بڑے کریمنل گینگ کام کرتے ہیں۔ ظاہر ہے جہاں اتنی بڑی تعداد میں گینگ ہوں گے، وہاں ان میں ٹکراﺅ ہو تا ہی ہوگا۔ اسی باہمی سر پھٹول میں ان گینگوں کے سینکڑوں افراد ہر سال مارے جاتے ہیں۔ کالے کاروبار میں کروڑوں پاﺅنڈ کا نقصان بھی انہیں اٹھانا پڑتا ہے۔ اب اس نقصان سے بچنے کیلئے انہوں نے آپس میں بیٹھ کر مک مکا کر لیا ہے۔ کیسے کیا یہ وہی جانتے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے علاقے ہی ایک دوسرے میں تقسیم کر دیئے ہوں جس طرح ہمارے ہاں فقیروں کے اڈے تقسیم کئے ہوتے ہیں جہاں کوئی دوسرا جا کر بھیک مانگنے کے حق سے محروم ہو جاتا ہے یا پھر دھندے تقسیم کردیئے ہوں۔ کوئی شراب بیچے گا کوئی کوکین، کوئی ہیروئن بیچے گا تو کوئی چرس، کسی کے حصے میں اسلحہ آئے گا تو کسی کے حصے میں بھتہ۔ اس طرح سب اپنے اپنے کام میں مصروف رہیں گے اور راوی لندن میں چین ہی چین لکھے گا۔ اب یہ باہمی اتحاد و اتفاق لندن پولیس کیلئے درد سر بنے گا کیونکہ پہلے ان کی باہمی لڑائی سے پولیس فائدہ اٹھاتی تھی اور بھرپور کارروائی کرتی تھی۔ اب تو پولیس کو خود سب کچھ کرنا پڑے گا۔
٭....٭....٭
پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ن) کی امیدوار نازیہ راحیل کو ٹکٹ جاری کردیا۔
یہ بڑی حیرت کی بات ہے جس جماعت نے خیبر پی کے یعنی اپنے صوبے سے کسی خاتون کو ایم این اے (قومی اسمبلی) کا ٹکٹ جاری نہیں کیا اس نے اپنی حریف جماعت کی خاتون امیدوار کو ٹکٹ کیسے جاری کردیا۔شاید خان صاحب اپنے مفتوح صوبے میں خواتین ارکان اسمبلی سے خوفزدہ ہیں۔ ویسے بھی کہتے ہیں دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ انہیں ہر خاتون رکن اسمبلی میں گلا لئی نظر آتی ہو گی ۔ ان کی پارٹی کی صوبائی ہوں یا قومی اسمبلی کی خواتین رکن۔ انہوں نے زیادہ تر خان صاحب کی پالیسیوں سے اختلافات ہی کیا ہے اس لئے وہ اپنے علاقے سے کسی خاتون کو ٹکٹ دینے کے موڈ میں نہیں ہیں۔نازیہ راحیل حیران و پریشان ہیں کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ کی امیدوار ہیں‘صوبائی اسمبلی کیلئے۔ یہ انہیں پی ٹی آئی والوں نے کس خوشی میں ٹکٹ دیدیا ہے انہوں نے تو درخواست بھی نہیں دی ۔ بات بھی نہیں کی۔ وہ شیر کے نشان پر الیکشن لڑیں گی۔ اب اور کچھ ہو نہ ہو یہ بات تو پکی ہے کہ نازیہ راحیل کو شیر کے نشان والا ٹکٹ ضرور مل جائے گا کیوں کہ مسلم لیگ والوں کو بھی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ان کی امیدوار خاصی مضبوط اور پاپولر ہیں۔ یہ غالباً پاکستان سیاسی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ کسی جماعت نے بنا مانگے اپنی مخالف جماعت کے امیدوار کو ٹکٹ دیدیا ہو ۔ اب معلوم نہیں یہ مس ٹیک ہے یا مذاق، جو بھی ہے کمال کا ہے۔ شامت آئے گی اب ٹکٹ جاری کرنے والوں کی۔ اس پر تو ....
بڑی دلچسپ غفلت ہو گئی ہے
”ٹکٹ جوانکو جاری“ ہو گئی ہے
والی پھبتی کسی جا سکتی ہے ۔ اب تحریک انصاف خیبر پی کے کی خاتون امیدوارا ن قومی اسمبلی کے دل پر کیا گزرتی ہو گی۔ کوئی ان سے جا کر پوچھے جن کو ٹکٹ کے قابل نہیں سمجھا گیا۔
٭....٭....٭
موبائل پھٹنے سے بھارت میں ایک شخص ہلاک
میڈیا پر اکثر موبائل پھٹنے سے ہونیوالے حادثات کی خبریں چلتی ہیں مگر کیا مجال ہے جو اس موذی موبائل کے استعمال میں ذرا بھر بھی فرق آیا ہو حالانکہ یہ وہ خود کش بمبار ہے جو ہر وقت ہماری حبیب میں ہاتھ میں یا سر ہانے پڑا رہتا ہے۔ نوجوانوں میں تو اس کا استعمال ایک بیماری کی شکل اختیار کر چکا ہے کسی زمانے میں لوگ واش روم میں بیٹھے اخبار پڑھتے تھے اب موبائل لئے نظر آتے ہیں جسے دیکھو جدھر دیکھو یہ فتنہ پرور ڈبیا لئے پھر رہا ہوتا ہے۔ موبائل جب چارجنگ پہ لگاہو تو اکثر کہا جاتا ہے استعمال نہ کریں مگر ہمارے ہاں خاص طور پر اس وقت بھی اسے کان سے لگایا ہوتا ہے یا دیکھا جا رہا ہوتا ہے حالانکہ دنیا بھر میں چارجنگ کے دوران موبائل پھٹنے کی کئی وارداتیں سامنے آئی ہیں۔ کئی مقامات پر تو جیب میں رکھا موبائل فون کسی بم کی طرح یوں پھٹتا ہے کہ کپڑوں کو آگ لگ جاتی ہے اسی طرح سنتے ہوئے پھٹے تو منہ اور سر کو اڑا دیتا ہے۔ بھارت میں گزشتہ روز ایک نوجوان اسی طرح موبائل پھٹنے سے ہلاک ۔ہوا ہے جبکہ ایک اور شخص کو آگ لگ گئی۔ ان حادثات کے بعد ہونا تو یہ چاہئے کہ موبائل کے استعمال میں احتیاط کی جائے مگر افسوس ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ اب تو لوگ موبائل لےکر دم توڑتے احباب اور جنازے میں پڑے مردے کے ساتھ بھی سیلفیاں لینے سے نہیں چوکتے۔ سڑک پر حادثہ ہو یا کسی عمارت میں۔ لوگ مدد کرنے کی بجائے سیلفیاں بناتے نظر آتے ہیں۔ نماز پڑھتے ہوئے سلفیاں بنتی ہیں تو باقی کیا بچ جاتا ہے۔ یہ سب اسی موبائل کی کارستانیاں ہیں جو طوطا بن کر ہر وقت ہمارے کاندھے پر سوار رہتا ہے یا بیٹر بن کر ہاتھوں میں ہوتا ہے۔