امریکہ، برطانیہ جیسے اہم ممالک میں پیشہ ور سفارتکاروں کی تعیناتی ضروری ہے
لندن (تجزیاتی رپورٹ: خالد ایچ لودھی) وزیراعظم میاں نوازشریف کی قیادت میں نئی جمہوری حکومت کی تشکیل کے بعد بیرون ملک پاکستان کے سفارتی مشنوں میں سابق حکومت کے دور میں کنٹریکٹ کی بنیاد پر تعینات کردہ سفرا اور ہائی کمشنروں کو ان کے عہدوں سے سبکدوش کیا جا چکا ہے۔ سابق حکومت کے دور میں امریکہ اور برطانیہ کے علاوہ دنیا کے اہم ممالک میں زیادہ تر ان شخصیات کو پاکستان کی نمائندگی کیلئے چنا گیا جوکہ سیاسی اور سفارشی بنیادوں پر سابق حکومت کے معیار پر پورا اترتے تھے۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے انتہائی اہم ممالک کے دارالحکومت میں پاکستان کی نمائندگی کیلئے صحافت کے شعبے سے ہی شخصیات کا انتخاب کیا گیا۔ سابق دور کے ان سفارتی نمائندوں نے جوکہ پیشہ ور سفارت کاروں سے بالکل مختلف تھے ان کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی ان سفارتی نمائندوں نے سابق حکومت کی اعلیٰ شخصیات سے ذاتی بنیادوں پر اپنے تعلقات کو فروغ دیکر ان کی ہر جائز ناجائز ضرورت ان ممالک میں پوری کی، یعنی حکومتی وزیروں اور مشیروں کے علاوہ حکومت کی اعلیٰ شخصیات کی من پسند اور منظور نظر شخصیات کی آﺅ بھگت پر قومی سرمایہ خرچ کیا۔ لندن میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کی بجائے واجد شمس الحسن نے صدر مملکت آصف علی زرداری کے برطانیہ میں نہ صرف مالی امور کی نگرانی کی بلکہ انکے بچوں کی تعلیمی ضروریات کے علاوہ ان کے پروٹوکول پر حکومتی ذرائع کا بے دریغ استعمال بھی کیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے ورکروں تک محدود رہ کر عوامی خدمات سرانجام دیں جبکہ تارکین وطن کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے ان مسائل کو مزید پیچیدہ بناکر پاکستانی پاسپورٹ اور نادرا کارڈ کے حصول کو مشکل بنا دیا۔ اسی طرح امریکہ میں حسین حقانی نے صدر مملکت آصف علی زرداری کو امریکی خوشنودی دلوانے اور امریکہ کا تسلط پاکستان میں بڑھانے کی غرض سے پاکستان کی قومی سلامتی کے تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے سفارتی حدود کو پار کیا اور پاکستان کے عسکری اداروں کی ساکھ کو بھی متاثر کیا۔ امریکہ اور برطانیہ میں سابق حکومت کے دور میں ان پاکستانی نمائندوں نے پاکستان کے وقار کو مجروع کیا اور قومی تشخص کی دھجیاں اڑائی گئیں ماضی کے ان تلخ تجربات کی روشنی میں اور خاص طور پر خطے میں بڑھتی ہوئی صورت حال اس امر کا تقاضا کر رہی ہے کہ اب امریکہ اور برطانیہ جیسے انتہائی اہم ممالک میں پاکستان کے کیرئر ڈپلومیٹس کو پاکستان کی نمائندگی کا فریضہ سونپا جائے اور ان پیشہ ور سفارت کاروں کے ساتھ فعال اور متحرک میڈیا ٹیم جوکہ وزارت اطلاعات و نشریات کے تجربہ کار پریس آفیسرز پر مشتمل ہو انکا تقرر لندن اور واشنگٹن میں کیا جانا چاہئے جو کہ مغربی میڈیا میں پاکستان کی بھرپور ترجمانی کر سکتے ہیں۔ پاکستان کےخلاف ہونے والی عالمی سازشوں کا مﺅثر انداز میں منہ توڑ جواب دیا جا سکے، خاص طور پر کشمیر کے حوالے سے سفارتی سطح پر لابنگ کرکے اس مسئلہ کی اہمیت کو اجاگر کیا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے، دہشت گردی اور ڈرون حملوں کے خلاف مﺅثر سفارت کاری بھی پاکستان کی ترجیحات میں شامل رہنی چاہئیں۔ پاکستان کی گھمبیر صورتحال جوکہ افغانستان میں نیٹو افواج کی موجودگی اور افغانستان میں بھارت کے کردارکی وجہ سے دن بدن مزید مسائل پیدا کر رہی ہے ان حالات میں نئی حکومت کو پاکستان کی وزارت خارجہ کے تجربہ کار پیشہ ور سفارت کاروں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔