صنعتی ترقی میں کوالٹی کی اہمیت
سنگاپور ، جنوبی کوریا ، ملائشیا، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا کی محیر العقول ترقی کا کریڈٹ جاپان کو دیا جاتا ہے اور یہ سچ بھی ہے۔ ان ملکوں نے آگے بڑھنے سے پہلے ، اُن اصولوں کو مشعل راہ بنایا ، جن پر چل کر جاپان نے ترقی کی ۔ جاپان ، جنگِ عظیم اول سے پہلے ، صرف بچوں کے لئے کھلونے بنانے والے ملک کی حیثیت سے مشہور تھایہ وہی زمانہ ہے ، کہ جب غیر منقسم ہندوستا ن میں ، ٹاٹا ایسے بڑے صنعتی ادارے قائم ہو رہے تھے۔20ویں صدی کی پہلی دو دہائیوں میں، صنعت و حرفت اور ٹیکسٹائل کے شعبوں میں ، امریکہ ، برطانیہ، جرمنی ، اور فرانس چھائے ہوئے تھے ۔باقی ساری دُنیا بشمول روس ( جو بعد میں سوویٹ یونین کہلایا) چین وغیرہ میں ہر سو خاموشی چھائی ہوئی تھی، اُن دِ نوں عالمی منڈی میں جاپانی مصنوعات کی بھی کوئی خاص پذیرائی نہیں تھی ۔جاپانی مصنوعات کو کم تر یا نمبر 2مال سمجھا جاتا تھا ۔
جاپانی بڑی سنجیدہ قوم ہے جذباتی نہیں اُنہوں نے ہماری طرح یہ نعرہ نہیں لگایا کہ ’’ جاپانی ہو تو جاپانی مال خریدو ‘‘ اور نہ ہی اُنہوں نے اپنی مصنوعات کے استعما ل کو حب الوطنی کا مظاہر قرار دیا ۔ عالمی منڈی میں مقابلے میں ناکامی پر وہ سر جوڑ کر بیٹھے ۔صورتحال کے ہر پہلو پر غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمارے مال کی کوالٹی ناقص ہوتی ہے۔ چنانچہ اُنہوں نے سب سے پہلے اپنے مال کی کوالٹی کو اتنا معیاری بنا دیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے جاپانی، عالمی منڈی پر چھا گئے ۔سوئی سے لے کر طیارے تک کو صرف ’’میڈ اِ ن جاپان کے لوگو ‘‘نے خریداروں کی اولین ترجیح بنا دیا ۔ لوگ جاپان کی بنی ہوئی چیزوں کو ٹٹول ٹٹول کر دیکھنے کی بجائے صرف یہ دیکھتے کہ اس پر میڈ اِ ن جاپان لکھا ہے یا نہیں ؟ جاپانیوں کی اس کاوش کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند ہی بر سوں میں کاروں کی دُنیا میں اجارہ داری رکھنے والے ملکوں کی سڑکوں پر دوڑنے والی بیشتر گاڑیاں جاپان کی بنی ہوتی تھیںاور یہ طلسم آج تک قائم ہے ۔
دوسری جنگِ عظیم میں امریکہ نے جاپان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ برسوں جاپان کے بادشاہ کے نام پر جنرل میک آرتھر کے ذریعے امریکہ کی حکومت رہی حتی کہ جاپان کے آئین کے مصنف بھی جنرل موصوف ہیں۔اس آئین میں شکست خوردہ جاپان کا دفاعی بجٹ تقریباً صفر کر دیا گیا ۔ جاپانیوں نے ہمت نہ ہاری اور اپنی سر گرمیوں کا رُخ امریکہ کے خلاف احتجاج اور مظاہروں کی بجائے ملبے کے ڈھیر سے نیا جاپان تعمیر کرنے کی طرف موڑ دیا۔جب دُنیا میں الیکٹرونک کا انقلاب آیا تو جاپا ن الیکٹرونک مصنوعات بر آمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا۔یہاں تک کہ امریکہ اور برطانیہ سمیت دُنیا کے بڑے بڑے صنعتی ملکوں کی منڈیوں پر چھا گیا۔جاپان کی شکست کو شائد 30سال بھی نہ گزرے ہونگے کہ فاتح ِ امریکہ مفتوح جاپان کا اربوںڈالر کا مقروض ہو گیا۔
پچاس کے عشر ے میںکوریا کی جنگ جو دراصل سرمایہ دار اور کمیونسٹ ملکوں کے درمیان تھی ، ختم ہوئی تو کوریا شمالی اور جنوبی دو حصّوں میں بٹ چُکا تھا۔جنوبی کوریا پر عملاً امریکہ مسلط تھا۔ لیکن جنوبی کوریا نے بھی جاپان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ، صنعتی ترقی کی طرف قدم بڑھایا اور پھر ا س کی تقلید میں سنگاپور ، ملائشیا، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا نے بھی جاپان کو رول ماڈل بنالیا۔ یہ ممالک ہم سے بعد میں آزاد ہوئے لیکن اب ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہیں۔واضح رہے کہ یہ ممالک آزادی کے وقت ہم سے بھی زیادہ پسماندہ تھے۔
ستر کی دہائی سے پہلے چین اور نوے کی دہائی سے پہلے بھارت کسی شمار قطار میں نہ تھے۔حالانکہ بھارت کے پاس ٹاٹا، برلا، اور ڈالمیا ایسی بڑی بڑی ایمپائرز تھیں۔آج درجہ بندی میں جاپان بدستور ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں ممتاز مقام پر کھڑا ہے ۔امریکہ دُنیا کی پہلی چین دوسری اور بھارت تیسری بڑی معیشت بن چُکے ہیں۔کالم میں اُن تمام وجوہات اور پہلوئوں کا احاطہ کرنا ممکن نہیں جن کی بدولت یہ ممالک ترقی کی رفعتوں تک پہنچے۔لیکن اس ترقی میں کوالٹی کنٹرول نے بنیادی اور اہم کردار ادا کیا۔ چند سال پہلے یہ لطیفہ مشہور تھاکہ ایک پاکستانی نے چینی دوشیزہ سے شادی کر لی۔کچھ عر صہ بعد اُس کے دوست نے پوچھا شادی کیسی جارہی ہے؟ اُ س نے بڑی اُداسی سے جواب دیاکہ وہ طلاق لے کر واپس چلی گئی ہے ۔دوست نے اُسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ چین کے’’ مال‘‘ کا یہی حال ہے چل جائے تو عمر بھر چلے وگرنہ دوسرے دن ہی ٹھُس ہو جاتا ہے ۔
ہمارے مخاطب حکومت ،صنعت کار، تاجر ، اور کاروبارسے وابستہ لوگ ہیں۔کاروبار کی دُنیا میںدوڑ لگی ہوئی ہے، جس کا مال معیاری ہو گاوہ ہاتھوں ہاتھ لے لیا جائے گا ۔اگر ہم نے اس دوڑ میں شریک ہونا اور اپنا مقام بنانا ہے تو ہمیں وطنِ عزیز میں بننے والی ہرچیز حتٰی کہ برآمد کے لئے زرعی اجناس اور پھلوں تک کی کوالٹی کے معیار کو آخری حدتک بہتر بنانا ہو گا ۔اس سوچ کے ساتھ مال تیار اور برآمد کرنا ہو گا کہ قیمت پر تو سمجھوتا ہو سکتا ہے لیکن کوالٹی پر نہیں۔اگر ہم اس معیار کو اپنا لیںتو کوئی وجہ نہیںکہ عالمی منڈی میں جہاں مقابلے کا راج ہے ، پاکستانی مال غیر ملکی خریداروں اور صارفین کی اولین ترجیح نہ بنے۔