جمعۃ المبارک 18؍ذیقعد 1441 ھ‘ 10؍جولائی 2020ء
وزیر خارجہ کیخلاف جھوٹی خبریں پھیلانے کی شرارت بھارت کر رہا ہے
اللہ کے کرم سے ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے گھر والوں نے بھی ان کی صحت کے بارے میں پھیلائی افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خیریت سے ہیں۔ ان کے کرونا میںمبتلا ہونے کی خبر کے بعد بھارت کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے۔بھارتی والی نہایت تواتر سے وکی پیڈیا اور سوشل میڈیا ان کی صحت کے حوالے سے منفی ریمارکس اور جھوٹی رپورٹس شائع کرنے لگا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کو ہمارے وزیر خارجہ کی متحرک شخصیت سے بہت تکلیف ہے۔ خاص طور پر جب وہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی منفی سیاست کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر کے بھارتی نام نہاد سیکولر جمہوریت کا اصل گھناؤنا چہرہ سب کو دکھاتے ہیں۔ ان باتوں سے بھارت کو بہت تکلیف رہتی ہے۔ لیکن جس طرح بچوں کو بددعا سے سکول ٹیچر نہیں مرتے۔ اسی طرح بھارت کی منفی جملے بازی سے ہمارے وزیر خارجہ کا بال بھی بیکا نہیں ہو گا۔ بہت جلد وہ صحت یاب ہو کر ایک بار پھر بھارت کو مرچوں کو دھونی دیتے نظر آئیں گے۔
٭…٭…٭
گلبرگ میں خاتون کی ٹریفک وارڈن سے بدتمیزی، تھپڑ جڑ دیا
آج کل ہماری خواتین میں کچھ زیادہ ہی جنگجو یا نہ صفات پیدا ہونے لگی ہیں۔ مختلف شہروں میں بااثر خاندانوں کی خواتین کے حوالے سے پہلے بھی ایسی خبریں نوٹ ہوئی ہیں کہ انہوں نے بدزبانی کی اسلام آباد میں ٹریفک ناکے پر مبینہ کرنل کی بیوی نے جس طرح ٹریفک پولیس کو ناکوں چنے چبوائے۔ بدزبانی کی انتہا کی وہ زیادہ پرانی بات نہیں۔ اب لاہور میں بھی ایک ماڈرن خاتون نے غلط پارکنگ سے روکنے والے اہلکار سے الجھ کر جس طرح اپنی اعلیٰ خاندانی تربیت کا مظاہرہ کیا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ویڈیو سے پتہ چل رہا ہے کہ اس خاتون کی وحشیانہ دھاڑ کے سامنے وردی پوش وارڈن بھی بے بس تھا۔ کیونکہ وہ خاتون پر ہاتھ نہیں اٹھا کستا تھا۔ اس کا گریبان نہیں پکڑ سکتا تھا۔ حتیٰ کہ جب خاتون نے وارڈن کو تھپڑ مار کر انتہا بھی کر دی وہ وارڈن نہایت تحمل سے صبر کے کڑوے گھونٹ پیتا رہا۔ یہ کسی ایک شخص کی نہیں اس ادارے کی توہین ہے جس کی اس نے وردی پہنی ہوئی تھی۔ پولیس اور وارڈنز سے لاکھ اختلافات سہی انکے رویوں کے بہت لوگ شاکی ہیں۔ مگر اس طرح سر بازار ایک خاتون کا تہذیب کے دائرے سے باہر نکلنے کی بھی کوئی حمایت نہیں کر سکتا۔
٭…٭…٭
پنجاب میں مذہبی سیاحت کے فروغ کیلئے کام جاری ہے‘ وزیر اقلیتی امور
شکر ہے اس طرف بھی کسی حکومت کو کام کرنے کا خیال آیا۔ پاکستان قدیم تہذیبی اور مذہبی اہمیت کے حامل مقامات کا مرکز رہا ہے۔ یہاں قدم قدم پرہندومت، بدھ مت اور سکھ مت کے مقدس مقامات ہیں۔ اگر حکومت مناسب سہولتیں مہیا کرے تو دنیا بھر سے بدھ، سکھ اور ہندومت کے یاتریوں کی کثیر تعداد سارا سال آ سکتی ہے۔ مذہبی سیاحت کو فروغ ملنے سے ملک سالانہ اربوں روپے زرمبادلہ کما سکتا ہے۔ ویسے بھی سیاحت ایک بڑی انڈسٹری کا روپ دھار چکی ہے۔ ہر ملک اس سے بھاری سرمایہ کما رہا ہے۔ پنجاب کے وزیر اقلیتی امور کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اب حکومت پنجاب مقدس مذہبی مقامات کو ترقی دے کر سہولتیں فراہم کرے اسے ایک منافع بخش کاروبار بنائے۔ صرف یہی نہیں پاکستان میں موجود قدیم تہذیبی مراکز کو بھی سیاحوں کے لئے پرکشش بنائے۔اگر بلوچستان میں ہزاروں برس قدیم ہنگلاج کالی کے مندر سندھ میں سادھو بیلا۔ خیبر پی کے میں بودھ سٹوپاز اور پنجاب میں کٹاس راج مندر اور سکھوں کے گورودواروں کو عالمی سطح پر مذہبی سیاحت کے لئے کھول دیا جائے تو یہ عالمی سطح پر بھی ہماری اچھی پہچان بن سکتے ہیں۔ ایسے عمدہ منافع بخش منصوبے جلدازجلد مکمل ہونے چاہیے۔
٭…٭…٭
آٹا بے قابو‘20 کلو کا تھیلا 850 پر نہ آ سکا‘ قیمت 11 سو پر پہنچ گئی
صوبائی حکومت کی تمام تر کوششوں اور فلورملز مالکان سے مذاکرات کے باوجود بے قابو ہونے والی آٹے کی قیمت پر قابو پایا نہیں جا سکا۔ 850 روپے فی 20 کلو تھیلا کی قیمت پر آٹے کی فروخت ممکن نہیں ہو سکی بازار میں یہ تھیلا 1050 سے 11 سو روپے میں مل رہا ہے۔ کچھ عرصہ سے تو یہ لگ رہا ہے کہ آٹا اور چینی کے درمیان مقابلہ حسن قیمت چل رہا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں ہیں۔ ایک ہفتہ چینی کی قیمت آسمان کو چھونے لگتی ہے تو دوسرے ہفتہ آٹے کی قیمت آسمان سے باتیں کرتی نظر آتی ہے۔ ان کی اس اڑان نے عوام کے ہوش اڑا دیئے ہیں۔ جس کے دستر خوان پر رونق اسی آٹے اور چینی کی وجہ سے نظر آتی ہے۔ سبزیاں، گوشت، دالیں پہلے ہی غریبوں کی منڈیر سے آوارہ کبوتروں کی طرح پروازکر چکی ہیں۔ اب دستر خوانوںپر سے اگر آٹا بھی غائب ہو گیا تو عوام کا روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرنے والا غریب طبقہ کہاں جائے گا۔ یہ بے چارے تو چوری اور ڈاکے کا منافع بخش کاروبار کرنے کی بھی ہمت نہیں رکھتے حکومت کم از کم آٹا کی قیمت میں کمی لاکر ان کو جینے کی تسلی ہی دے۔