ایک ادنیٰ طالبعلم ہونے کے ناطے میں اتنا سمجھ سکتا ہوں کہ ہر کالم نویس کی اکثر و بیشتر یہ کوشش ہوتی ہے کہ حالات حاضرہ پر لکھتے وقت وہ زیادہ تر اْن معاملات کو گرفت میں لائے جو سب سے زیادہ مفادِ عامہ سے جْڑے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ میرے ملک اور اسکے عوام کا پچھلے چند مہینوں سے سب سے بڑا جو مسئلہ نظر آ رہا ہے وہ ہے ملک کی گرتی معشیت اور کمر توڑ مہنگائی لہذا اس تناظر میں پچھلے کچھ ہفتوں سے اپنی بھی یہی کوشش رہی ہے کہ اس سباق میں اْن ارباب اختیار جو اس وقت حقیقتاً اپنے آپکا شمار دنیاوی خداؤں میں کر کے عوام کے رازق بنے بیٹھے ہیں اْنھے باور کرایا جائے کہ انکی دانست میں ملکی مفاد کی آڑ میں جن فیصلوں کو وہ سخت فیصلوں سے تعبیر کر کے لوگوں کو مستقبل کے سہانے سپنے دکھا رہے ہیں وہ دراصل کس طرح نہ صرف غریب کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھیننے کا باعث بن رہے ہیں بلکہ انکے بھیانک اثرات انے والے دنوں میں کس طرح ملکی سلامتی کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ اسی سلسلے کی کڑی میں اس ہفتے پروگرام یہ تھا کہ ان دنوں ملکی معیشت پر سب سے زیادہ اثرانداز ہونے والے ڈالر پر "ڈالر کہانی" کے عنوان سے ایک تفصیلی مضمون لکھا جائے جس پر راقم نے کافی ریسرچ ورک بھی کر لیا تھا لیکن ہفتے کے دن پاکستانی سیاست میں ایک ایسا بم شیل پھٹا جسکے بارے میں ابھی وثوق سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کیا یہ ایک ایسا خودکش دھماکہ ثابت ہو گا جسکا نقصان صرف اسکے پھاڑنے والے کے اپنے گھر میں ہی ہو گا یا پھر اس دھماکے کی شدت مخالف فریق کی پوری عمارت ہی مسمار کر دے گی۔ راقم سمجھتا ہے کہ ایسے میں ڈالر کہانی شائد قارئین کی بھرپور توجہ حاصل نہ کر سکے لہذا عوامی تجسس کو محسوس کرتے ہوئے کوشش ہو گی کہ معاملے کی حساسیت کے پیش نظر اس موضوع پر اگر کھل کر بات نہیں ہو سکتی تو پھر بھی انتہائی معنی خیز طریقے سے عرق کشید کر کے چند الفاظ میں مدعا بیان کر دیا جائے۔ جیسے کہتے ہیں کہ " گونگے دیاں رمزاں گونگے دی ماں جانے" اسی طرح راقم کا یقین ہے کہ اسکے قارئین اسکی خاموش زبان سمجھ جائینگے۔ قارئین آپکو یاد ہو گا کہ راقم نے ایک نہیں متعدد بار اشارے کنائیوں میں اپنے کالموں میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ طوطا فال والا نجومی اپنا چورن بیچنے کی خاطر بیشک پنڈی کی قربت کا تاثر دیکر جتنی مرضی بار ہر آنیوالے مہینے کو اہم قرار دے اصل کھیل جولائی کے مہینے سے شروع ہو گا۔ غور کیجیئے گا کہ راقم نے یہ کیوں کہا اسکے پیچھے تاریخ کے بہت سے تلخ حقائق پوشیدہ ہیں جنھے جاننے کیلیئے ملکی تاریخ کا وسیع مطالعہ درکار ہے۔ اج جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو پتا نہیں لاشعوری طور پر یکایک مارچ 2007ء کا ماضی کیوں بند کواڑ کھولنے پر اصرار کرنے لگا ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی باور کرا رہا ہے کہ بھلے اپنے دھیمے اور محتاط مزاج کے پیش نظر ان واقعات اور انکے پیچھے چْھپے محرکات کی عکس بندی نہ کرو جو اْس وقت ان واقعات اور اسکے بدلے میں پیدا ہونے والی صورتحال کا سبب بنے تھے اور ساتھ یہ بھی یاد دلا رہا ہے کہ اسی ماضی کا احاطہ کرتے 8 جولائی کو ایک معروف کالم نگار نے اپنے کالم میں اْن حقائق سے پردہ اْٹھا دیا ہے جو بسا اوقات ایسی صورتحال کا سبب بنتے ہیں جیسی صورتحال پچھلے تین روز سے پیدا ہوئی ہے۔ یہ کالم پڑھنے کے بعد اسکے مندرجہ جات سے اختلاف ممکن نہیں کیونکہ اسکی سند کیلیئے اسکی اپنی گواہی موجود ہے لیکن اتنا ضرور کہونگا کہ یہ ہے بہت تلخ اور تکلیف دہ حقیقت جسکا کوئی ملک اور ادارہ بار بار متحمل نہیں ہو سکتا۔ اکثر دوست اس پیدا ہونے والی نئی صورتحال کو سیاست میں نئی ڈویلمنٹ سے تعبیر کر رہے ہیں اور بعض کے نزدیک جیسے جیسے جون جولائی کے مہینوں میں گرمی نے جوانی پکڑی ہے ویسے ویسے ہمارے ملک پاکستان کی سیاست میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ گھمسان کا رَن پڑتا نظر آ رہا ہے لیکن یہ خاکسار اکثریت کے اس خیال سے اختلاف کرتے یہ کہنے کی جسارت کرنا چاہتا ہے کہ جس چیز کو ہمارے ہاں سیاست کہا جاتا ہے دراصل یہ اخلاقی گراوٹ کی وہ انتہا ہے جہاں مہذب معاشرے شرمندگی کا اظہار کرتے نظر نہیں اتے بلکہ وہاں اگر کبھی ایسی صورتحال پیدا ہو جائے تو ان حالات میں وہاں صف ماتم بچھ جاتی ہے۔ قارئین کیا آپ اسکا جواب جاننے کی کوشش نہیں کرینگے کہ وہاں ایسا کیوں اور ہمارے ہاں ایسا کیوں۔ جواب بڑا سادہ ہے کہ وہاں افراد سیاست کرتے ہیں اور ہمارے ہاں اگر ادارے سیاست نہیں بھی کرتے تو افراد اداروں کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا مزید پوچھنا نہیں چاہیں گے کہ ایسا کیوں تو پولیٹیکل سائنس کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے اتنا جانتا ہوں کہ ہمارے سیاسی کلچر میں سیاسی موروثیت کا تو سنا تھا اب ایک نئی وبا نے بھی جنم لیا ہے جسکا نام سیاسی توہم پرستی ہے جو مذہبی توہم پرستی سے بھی کئی گْنا خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38