بیٹیا ں بہت پیاری ہوتی ہیں اور نوا سے نواسیوں سے محبت اور بھی بڑھ جاتی ہے،وزیراعلیٰ پنجاب نے اقتدار کے چمکتے سو رج کے باوجود اپنے نواسے کو ایچی کا لج میں داخلہ نہ ملنے پر مدد نہ کی بلکہ میر ٹ پسند پر نسپل کو فون کرکے اس کی بہتر کارکردگی کی تعریف کر ڈالی۔ بیٹیا ں بہت پیاری سہی مگر انصاف انصاف ہی ہے، اپنے داماد کو بھی جیل بھجوا کر تاریخ رقم کر ڈالی سا بقہ بیکری لڑائی ایشو پر ہما را معاشرہ تو تنقید برائے تنقید پر ہی عمل پیرا رہتا ہے کوئی اگر معاشرے میں لو گوں کی نفسیات کا گہرائی سے تجزیہ کرے تو یہاں لوگ نفسیاتی طور پر دوہرے پن کی سوچ کا شکار نظر آتے ہیں۔ مثلاً عموما لوگ بے ایمان ہیں اور ایمان والے لو گوں کو تلا ش کرتے ہیں۔ یہاں لوگ خود بے وفا ہیں اور وفا دار لوگ چاہتے ہیں۔ یہاں لوگ جھوٹ بو لتے ہیں اور دوسروں سے سچ سننے کی امید کرتے ہیں۔ یہاں لوگ خدمت کر نے کیلئے تیار نہی لیکن دوسروں کی خدمت لینا چاہتے ہیں لیکن نادان یہ نہی سمجھتے کہ فطرت کے اصول یکسانیت کی بنیاد پر ہو تے ہیں جو دو گے وہی لو گے، اس لئے اگر کوئی دھوکے باز تو دھوکا کھانے کیلئے بھی تیار رہے یہ فطرت کا اصول ہے۔ میں اپنی بات بڑھانے سے پہلے ایک کہانی سنا نا چاہتا ہوں۔
ایک بادشاہ نے گدھوں کو قطار میں چلتے دیکھا تو کمہار سے پوچھا کہ تم انہیں کیسے سدھارتے ہو کمہار نے کہا جو گدھا لائن توڑتا ہے میں اسے سزا دیتا ہوں اور بس اسی خوف سے یہ سیدھا چلتے ہیں۔ بادشاہ نے متاثر ہو کر کہا میرے ملک میں امن قائم کر سکتے ہو....؟کمہار نے حامی بھر لی شہر آئے تو بادشاہ نے اسے منصب بنا دیا. کمار کے سامنے ایک چور کا مقدمہ لایا گیا. کمہار نے فیصلہ سنا یا کی چور کے ہا تھ کاٹ دو . جلاد نے وزیر کی طرف دیکھا اور کمہار کے کان میں بولا کہ جناب یہ وزیر صاحب کاخاص آدمی ہے۔ کمہار نے دوبارہ کہا کہ چور کے ہاتھ کاٹ دو۔ اس کے بعد خود وزیر نے کمہار کے کان میں سرگوشی کی جناب تھوڑا خیال کریں یہ اپنا ہی آدمی ہے۔ کمہار بولا چور کے ہاتھ اور وزیر کی زبان کاٹ دو کمہار کے صرف ایک ہی فیصلے کے بعد پورے ملک میں امن قائم ہو گیا۔ ہما رے ملک کا نظام بھی کچھ ایسا ہی ہے اسی لیے یہاں نہ تو امن قائم ہوتا ہے اور نہ ہی انصاف ملتا ہے کیونکہ جب بھی انصاف پر مبنی فیصلے لینے کی امید ہو تو کوئی کسی کے کان میں کہ دیتا ہے کہ اپنا بندہ ہے۔ میں نے اپنی 20 سالہ صحافتی زندگی میں بہت ساری حکومتوں کے اتار چڑھاو دیکھے ہیں اور ہر حکومت کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے آخر میں آ کر بات یہی ہوتی ہے کہ کان میں کہنے والے یہی کہ جاتے ہیں.... اپنا بندہ جے اور بس انصاف بے بس ہو کے رہ جاتا ہے۔ میں نے شہباز شریف کو انصاف پسند پایا اور انصاف کرتے دیکھا ہے مگر انکے ارد گرد کے لوگ انکے کانوں میں بھی بہت کچھ کہتے ہیں۔ انہیں تو یہاں تک بھی کیہ جاتے پیں کہ ”اپنا بندہ جے نہی تے فیرایس وی توھاڈے بندے آں©“ مگر شہباز شریف کوثابت قدم پارہے ہیں۔ ایچی سن میں سی ایم کے نواسے کا داخلہ نہ ہونااور وزیراعلیٰ کا پرنسپل کوفون کر کےاسکی میرٹ پسندی کی تعریف کرنا، یہاں بھی ارد گرد کے طبلہ نوازوں نے کی دیا....”سرکار اے تے نواسہ جے خیال کرو“ رولزریلیکس کی تجاویز یں دی گئیں مگر وزیراعلیٰ نے مسترد کر دیں .خاندان میں بھی بہت شور مچا. مگر شہباز شریف اپنے فیصلے پرقائم رہے. اے کاش ان کان میں کچھ کہنے والوں پر بہی کمہار کا قانون لاگو ہوجائے توحالات سدھر جائیں۔ مجھے ایک اعلیٰ پولیس آفیسر نے کہا کی وزیراعلیٰ توہمارے لئے مصیبت بنے ہوئے ہیں، نوکری کرنا عذاب بن چکا ہے۔ وزیراعلیٰ کے ارد گرد کے طبلہ نواز اپنی مرضی کروانے کے لئے دباﺅ ڈالتے ہیں جبکہ وزیراعلیٰ یکساں مختلف ہیں۔ وزیراعلیٰ کواس گند کو صاف کرنا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں ایسی گندگی کی صفائی کے لئے وزیر اعلی کو مزید محنت کرنا ہوگی۔ مجھے پی ٹی آئی اپوزیشن کی سمجھ نہیں آتی اور انکے حق میں بنا سوچے سمجھے گزشتہ روز پنجاب کی اپوزیشن نے بے بنیاد میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب کے پرنسپل سیکرٹری امداد اللہ بوسال کی گاڑی کا چالان، جعلی نمبر پلیٹ، سی ٹی او کو متعلقہ وارڈن کو معطل کرنے اور مر یم نواز کی پروٹوکول کی گاڑی سے عمران خان کی بہن ڈاکٹر عظمیٰ کی گاڑی کو ٹکر مارنے پر جھوٹی تقرریں جھاڑ یں۔ امداد بوسال نے مجھے بتایاکہ نہ تو انکی گاڑی کا چالان ہوا،نہ کوئی جعلی نمبر پلیٹ تھی۔نہ کوئی وارڈن کو معطل کرنے کی سی ٹی او کو کال کی گئی، کوئی چالان رسید، نہ کال ریکارڈ سامنے لائے۔ وطن عزیز کی سیاست سے جب تک جھوٹ کا خاتمہ اورکسی اچھا کام کرنے والے کو کام نہ کرنے دیاگیا تب تک ملک ترقی نہ کرپائے گا.... ذرا سوچئے۔