بھارت پاکستان پر تین طریقوں سے حملہ آور ہے۔ ایک طرف براستہ افغانستان وطن عزیز میں دہشت گردی کا بازار گرم کیے ہوئے ہے تو دوسری طرف بھارتی حکومت، تبصرہ نگار اور میڈیا مل کر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان برپا کیے ہوئے ہیں اور تیسر ا حملہ بھارتی خفیہ ایجنسی ‘را’ کے ذریعے پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ کی صورت میں ہے۔ جس پر یکم جنوری 2025ء کو معروف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی مفصل رپورٹ میں بھارت کو جارح ملک کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس پر دنیا بھر سے سوال ضرور بنتا ہے کہ بھارت کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ اپنی سرحدوں سے باہر آزاد ممالک میں اپنے مخالفین کو قتل کراتا پھرے، اور اس سے کوئی باز پرس بھی نہ کرے؟ امریکی اخبار کی رپورٹ میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ برطانوی راج سے آزادی کے بعد وہ پہلا وزیراعظم ہے جس نے خود کو طاقتور اور قانون سے بالاتر ثابت کرنے کے لیے بھارت سے باہر قتل و غارت گری کی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ پاکستان میں بھارت کی طرف سے ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ 2021ء سے شروع ہے جس کے خلاف پاکستان عالمی سطح پر تسلسل کے ساتھ بھارت کے خلاف احتجاج کرتا چلا آرہا ہے۔ تاہم 14 اپریل 2023ء کو لاہور کے علاقے اسلام پورہ میں عامر سرفراز نامی شخص کے قتل کو بھارتی میڈیا نے بھارت کی بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا تو یہ پہلا موقع تھا جب بھارت سرکار نے اپنی دھاک بٹھانے کے لیے میڈیا کے ذریعے ایک ایسے شخص کے قتل کی ذمہ داری لینے کی کوشش کی جس پر الزام تھا کہ وہ 2013ء میں لاہور کی کوٹ لکھ پت جیل میں قید دہشت گردی کے مقدمہ میں موت کی سزا پانے والے سربجیت سنگھ کے قتل میں ملوث ہے۔ عامر سرفراز اس وقت ایک زیر سماعت مقدمے میں قید تھا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ سربجیت سنگھ کی رہائی کے لیے بھارت سرکار نے 2013ء میں بھرپور تحریک شروع کر رکھی تھی جس میں اسکی والدہ اور بیوی بچوں کی طرف سے بھارتی اور مغربی میڈیا کے ذریعے پاکستان سے کی گئی اپیلیں بھی شام تھیں کہ اس دوران سربجیت سنگھ کی طرف سے کی گئی توہین رسالت کے ردعمل میں جیل کے اندر قیدیوں میں پھیلنے والے اشتعال سے شروع ہونے والے جھگڑ ے کے دوران سربجیت سنگھ مارا گیا۔ اس کے قتل کے الزام میں عامر تامبا کے نام سے مشہور عامر سرفراز اور مدثر نامی شخص کو قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن الزام ثابت نہ ہونے کہ وجہ سے وہ دونوں سربجیت سنگھ کے قتل کے الزام میں بری ہوگئے تھے۔ جیل میں اپنے جرم کی سزا کاٹ کر عامر سرفراز جب رہا ہوا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بھارت اپنے دہشت گردی سربجیت سنگھ کے کوٹ لکھ پت جیل میں قتل کا قصور وار سمجھے جانے والے عامر سرفراز کو نشانہ بنانے کی کوشش کرے گا۔ نہ ہی عامر سرفراز اپنے لیے ایسے کسی خطرے سے واقف تھا۔ واشنگٹن پوسٹ کی طرف سے اپنی رپورٹ میں عامر سرفراز کے قتل کا تفصیل سے ذکر ثابت کرتا ہے کہ بھارت پہلے بھی سربجیت سنگھ جیسے اپنے سرکاری دہشت گردوں کے ذریعے پاکستان میں خون ریزی میں ملوث رہا ہے۔
نامعلوم قاتلوں نے عامر سرفراز کی گلی اور گھر کے اندر دوسری منزل پر اس کی رہائش سے متعلق مکمل چھان بین کر رکھی تھی۔ قاتل 14 اپریل کو وہ اسلام پورہ کی تنگ سی گنگا نام کی گلی میں داخل ہوئے۔ محفوظ محلہ داری کی ریت کے مطابق قاتلوں کو عامر سرفراز کے گھر کا بیرونی دروازہ کھلا ہوا ملا۔ غالباً قاتل علاقے کی ریکی کے دوران جان چکے تھے کہ یہاں آباد لوگ دن کے وقت اپنے گھروں کا بیرونی دروازہ کھلا چھوڑ دیتے ہیں۔ قاتل اطمینان سے گھر کے اندر دوسری منزل پر پہنچے اور عامر سرفراز پر قریب سے 4 گولیاں فائر کرنے کے بعد باہر موجود اپنے موٹر سائیکل پر سوار ہوکر فرار ہوگئے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ عامر سرفراز کو بھارت نے قتل کرایا ہوگا۔ چند روز بعد جب بھارتی میڈیا نے اس کے قتل پر شادیانے بجائے تو پھر 2013ء میں بھارتی دہشت گرد سربجیت سنگھ کے کوٹ لکھپت جیل میں ہونے والا قتل ایک بار پھر میڈیا کا موضوع بن گیا۔ جس کا حوالہ امریکی اخبار نے بھی دیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے بھارت کے خلاف اپنی رپورٹ میں پاکستان کے اندر دیگر بہت سی قاتلانہ کارروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے اسے بھارت کی پاکستان کے خلاف اجیت کمار دوول کی ڈوکٹرائین سے تعبیر کرتے ہوئے 2014ء میں تمل ناڈو یونیورسٹی میں اس کی تقریر کا خاص طو ر پر ذکر کیا ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ ’ہم اپنے دفاع کے لیے پاکستان میں وہاں حملہ آور ہوں گے جہاں سے ہمیں جملے کا خطرہ ہو، جبکہ پاکستان کی کمزوریاں بھارت سے بہت زیادہ ہیں‘ اپنی تقریر میں اس نے پاکستان کی کمزوریوں کی تفصیل بیان کرنے کے علاوہ کھلے الفاظ میں پاکستان کو دھمکیاں بھی دی تھیں۔ لیکن یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ امریکی اخبار کو اپنی رپورٹ میں اتنے طویل عرصے کے بعد اجیت کمار دوول کے ذکر کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ واشنگٹن پوسٹ نے بھارت کی صرف پاکستان میں قاتلانہ کارروائیوں کا ہی ذکر نہیں کیا۔کینیڈا میں خالصتان تحریک کے اہم کینیڈین سکھ شہریوں کے قتل اور امریکا میں خالصتان تحریک کے حوالے سے شہریت رکھنے والے امریکی شہری کو قتل کرانے کی بھارتی خفیہ ادارے را کی کوششوں کو بھی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے جس میں را کے اہم افسران کا ذکر بھی شامل ہے۔ امریکی اخبار لکھتا ہے کہ نریندر مودی کے دورحکومت میں را پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ کے لیے کرائے کے قاتلوں اور افغان اسلحے کا استعمال کر رہی تھی جنھیں پیسوں کی ادائیگی بنکاری نظام کی بجائے حوالہ ہنڈی کے ذریعے کی جارہی تھی۔ لیکن اب بھارت نے پاکستان کے علاوہ مغربی ممالک، امریکہ اور کیینڈا میں بھارت مخالف افراد کو قتل کرانے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس سے نہ صرف جنوبی ایشیائی ممالک کا امن برباد ہوسکتا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ بہرحال پاکستان کی وزارت خارجہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اقوام متحدہ میں بھارت کے خلاف تحریری احتجاج جمع کرائے اور بھارتی خفیہ ایجنسی را پر پابندی لگائے جانے کا مطالبہ کرے۔
’را‘ کی پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ پر امریکی اخبار کی رپورٹ
Jan 10, 2025