اتوار‘ 25؍ جمادی الاوّل 1442ھ‘ 10؍ جنوری 2021ء

فوج جب بھی اقتدار میں آئی سارے کام چھوڑ کر پہلے ہفتے عوامی فلاح کے کام کئے: شجاعت
بزرگ سیاستدان چودھری شجاعت نے اپنی طویل سیاسی زندگی میں جمہوریت اور آمریت کے اتنے نشیب و فراز دیکھے ہیں کہ وہ ان دونوں کے خیروشر سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کا یہ بیانیہ ان کے دکھ کا اظہار ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ حکمران خاص طور پر جمہوری حکمران سب سے پہلے عوام کے دکھوں کا مداوا کریں۔ انہوں نے موجودہ حکومت کو صائب مشورہ دیا ہے کہ پہلے وہ کم آمدنی والے مزدوروں، محنت کشوں اور بیروزگاروں کے مسائل حل کرے اس وقت تک باقی سارے کام ٹھپ رکھے۔ اب انکے اس مشورے سے وزیروں، مشیروں اور دیگر ارکان اسمبلی کو تو ظاہر ہے بہت دکھ ہوگا کیونکہ اگر ان کو دیئے جانے والے اربوں روپے کے فنڈز روک کر غریبوں پر خرچ ہونے لگے تو یہ سب فاقوں مرجائیں گے۔ یہ سب تو عیاشیاں انہی فنڈز کے بل بوتے پر کرتے پھرتے ہیں فوج کا نام تو چودھری صاحب نے ازراہ تنبیہ لیا ہے تاکہ غافل لوگ ہوشیار ہوجائیں اس لئے حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے حلیف چودھری صاحب کی باتوں پر دھیان دیں۔ انہیں مجذوب کی بڑ نہ سمجھیں یہ ایک سیانے سیاستدان کے تجربات کا نچوڑ ہے۔ جمہوری تماشے سے اکتائے ہوئے لوگ کہیں بپھر ہی نہ جائیں۔ وقت گزر رہا ہے، مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کے ستائے لوگوں کے غموں کام مداوا ضروری ہے۔ یہی وڈے چودھری صاحب بھی کہہ رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
ٹرمپ جاتے جاتے ایٹم بم نہ چلا دیں، امریکی حکام کو تشویش
ٹرمپ سے کچھ بھی بعید نہیں۔ ایٹم بم تو کیا وہ ہائیڈروجن بم نائٹروجن بم اور نجانے کون کون سے بم چلا سکتے ہیں۔ فی الحال تو انہوں نے ہلکا سا عوامی بم چلایا ہے جس نے امریکی پارلیمنٹ یعنی ایوان نمائندگان کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ انکے ایک اشارے پر انکے فدائین امریکی سینٹ کو مٹی کے گھر کی طرح فتح کرکے اس پر سوار ہوگئے۔ اس طرح ٹرمپ اب بم چلائیں یا نہ چلائیں مگر وہ امریکی نظام کی بنیادوں میں ایسے ٹائم بم فٹ کرگئے ہیں جو وقتاً فوقتاً پھٹتے رہیں گے۔ ہارنے والے صدر اب اگر ٹرمپ کی طرح گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو کی روایت آگے بڑھانے لگے تو پھر امریکہ کا مستقبل تباہ ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا کیونکہ جب بنیادوں کو ہی بارود رکھ کر اڑایا جائے تو بڑی سے بڑی عمارت بھی زیادہ دیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی اور زمین بوس ہوجاتی ہے۔ کل تک یہی کام امریکہ اپنے مخالف ممالک میں کرواتا رہتا تھا۔ وہ کئی امریکہ مخالف حکومتوں کو گرانے کیلئے ہر غیرقانونی غیر سیاسی غیر جمہوری کام کرتا تھا۔ آج لگتا ہے ’’جیسے کو تیسا‘‘ کے عمل نے امریکہ کا گھر ہی دیکھ لیا ہے۔ اب چند دن رہ گئے ہیں ٹرمپ کے سابق صدر کہلانے میں اس لئے امریکی حکام ڈر رہے ہیں کہ یہ جنونی شخص امریکہ مخالف ممالک پر کہیں حملہ نہ کرا دے جس کی سزا اور نتائج بعد میں آنے والی حکومت کو بھگتنا ہوں گے۔ اس لئے پینٹاگون والوں کو ان کے ہر حکم پر کڑی نظر رکھنا ہوگی ورنہ یہ جنونی شخص اپنے ساتھ ساتھ پورے امریکہ کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے اس وقت ٹرمپ غصے میں پاگل ہورہے ہیں۔
کیپٹن (ر) صفدر نے مولانا فضل الرحمن کا ہاتھ چوم لیا
عقیدت کسی سے بھی ہوسکتی ہے۔ کیپٹن صفدر بھی بڑے جہاں دیدہ ہیں۔ انہوں نے دیکھ لیا ہے کہ اس وقت پی ڈی ایم میں ان کی اہلیہ کے والد میاں نوازشریف کا اگر کوئی سچا خیرخواہ ہے تو وہ فضل الرحمن ہی ہے باقی سب پہلے اپنا فائدہ دیکھتے ہیں۔ صرف فضل الرحمن ہی میاں نوازشریف کے جنگ و جدال کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں ۔ سچ کہیں تو یہی فلسفہ خود مولانا کا بھی ہے۔ بس سوچنے کی بات یہ ہے کہ مولانا کے پاس کھونے کیلئے اپنی سیٹ تک نہیں ہے کیونکہ اس بار وہ انتخاب جیت نہ سکے اس لئے اسمبلی سے باہر ہیں۔ اب جس اسمبلی میں مولانا فضل الرحمن ہی نہ ہو اس کے قائم رہنے یا ٹوٹنے سے ان کا کیا لینا دینا۔ اب اسی حمایت کی وجہ سے ہوسکتا ہے کیپٹن صفدر نے مولانا کا ہاتھ چوما ہو تو اس کی زیادہ خوشی ان کے ساتھ بیٹھی ان کی بیگم مریم نواز کو ہی ہوگی۔ خود صفدر صاحب کا کہنا ہے کہ مولانا نے ختم نبوت کی بات کی اس لئے ان کا ہاتھ چوما ہے۔ یا پھر ہوسکتا ہے کہ مولانا کی سیاست کیپٹن (ر) صفدر کے دل میں گھر کر گئی ہوگی۔ اس لئے انہوں نے مولانا کا ہاتھ چوم کر ان کی سیاسی بیعت کرلی ہوگی۔ ساری دنیا ایک طرف مولانا ایک طرف، ان کی جارحانہ سیاست کی وجہ سے حکومت بھی بوکھلائی ہوئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہونے کے باوجود پنجاب میں ابھی تک پی ٹی آئی کی حکومت کو وہ ٹف ٹائم نہیں دے سکی جو مولانا اپنے جلسوں اور ریلیوں کی وجہ سے ملک بھر میں جگہ جگہ دے رہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب کیپٹن (ر) صفدر بھی جارحانہ سیاست کے گُر سیکھنے کیلئے مولانا کے مرید ہوگئے ہیں۔ دیکھتے ہیں اب یہ ممولا شاہین بنتا ہے یا مملولا ہی رہتا ہے۔
٭٭٭٭٭
کرونا کی دوسری لہر نے یورپ میں تباہی مچا دی
اگر تیسری عالمی جنگ چھڑ گئی ہوتی تو بھی اتنی بڑی تعداد میں ایک روز میں لوگ مارے نہ جاتے جتنا اس کرونا کی وجہ سے ایک دن میں مررہے ہیں۔ اس وقت امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دیگر کئی یورپی ممالک میں کرونا کی دوسری لہر نے موت کا بازار گرم کررکھا ہے روزانہ ہزاروں افراد ہلاک ہورہے ہیں اس کے برعکس ہم بے فکرے بنے ہوئے ہیں۔ یہ بھول رہے ہیں کہ اگر طبی لحاظ سے بہترین سہولتیں مہیا کرنے والے ممالک میں تمام تر حفاظتی اقدامات کے علاج معالجے کے باوجود لوگ یوں مررہے ہیں جیسے سوکھے پتے خزاں میں درختوں سے گرتے ہیں تو ہمارا کیا بنے گا کالیا۔ اگر یہ نئی لہر جس کے ابھی چند متاثرین ہی پاکستان میں ملے ہیں ہمارے ملک میں بھی خدا نہ کرے داخل ہوگئی تو ہم کہاں جائیں گے۔ ہمارے ہاں تو کبھی پتہ چلتا ہے وینٹی لیٹر کم ہیں کبھی آکسیجن سلنڈر پورے نہیں ہوتے لوگ خوف کی وجہ سے ہسپتالوں کا رخ نہیں کرتے کہ کہیں انہیں بھی متاثر کرونا قرار دے کر ویران خالی وارڈز میں منتقل نہ کردیا جائے جہاں طبی سہولت تو کوئی د ستیاب نہیں البتہ اس کا نام ’’کرونا وارڈ‘‘ ضرور رکھا ہوتا ہے یوں زندہ بندہ وہاں سے مر کر ہی نکلتا ہے گویا ہسپتال نہ ہو مچھ جیل ہو جہاں سے اپنے پیروں پر جانے والا چار کاندھوں پر واپس آتا ہے۔