لاشوں کو خریدنے کا کاروبار نہیں زندگی کی قیمت میں اضافہ کریں!!!!

وزیراعظم عمران خان کوئٹہ پہنچے، سانحہ مچھ میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا یوں چند روز سے جاری تنازع انجام کو پہنچا۔ جہاں تک تعلق جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کے مطالبات اور وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کا تھا یہاں تک تو تمام مراحل طے پا گئے ہیں گوکہ یہ مسئلہ اس سے زیادہ بہتر انداز میں حل کیا جا سکتا تھا لیکن پاکستان تحریکِ انصاف نے معاملات کو بگاڑنے کی روایت برقرار رکھی۔ اس سانحے اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ شاید حکومت کے لیے اپنے شہریوں کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی، حکومتیں قتل ہونے والے کے لواحقین کو چند لاکھ معاوضہ ادا کر کے یہ سمجھتی ہے کہ اس نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی ہے۔ حکومت کسی بھی جماعت کی ہو اول تو حکمران اظہارِ تعزیت کے لیے نہیں جاتے اور مجبوری کے تحت چلے بھی جائیں تو یہ دورہ صرف ٹیلیویڑن کو خبر دینے اور اخبار کے صفحات بھرنے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ موجودہ حکومت نے تو یہ مجبوری بھی ختم کرنے کی کوشش کی حالانکہ خوشیوں میں بڑھ چڑھ کر شریک ہونا اور دکھوں کو بانٹنا ہماری روایات کا حصہ ہے لیکن یہ دو پاکستان ہیں غریب کا پاکستان اور ہے امیر کا پاکستان اور ہے۔ حکمرانوں کا پاکستان اور ہے عوام کا پاکستان اور ہے۔ عام آدمی کی حیثیت ایک ووٹر سے زیادہ کی نہیں ہے۔ ہر حکمران اس بیبس ووٹر کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس کے شناختی کارڈ بھی استعمال کرتا ہے لیکن اس کی ترقی کے لیے کوئی سنجیدگی سے کام نہیں کرتا۔ کوئی کراچی کی سڑکوں کو لہو لہو کر دیتا ہے تو کوئی اس غریب عوام کو ماڈل ٹاؤن میں گولیوں سے بھون دیتا ہے تو کوئی جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو بلیک میلر کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔ جنہیں مارا جاتا ہے وہی انہیں اقتدار کی بنیاد فراہم کرتے ہیں، بیرحم حکمران طبقہ یہ نہیں سمجھتا کہ انتقال کرنے والوں کے گھر جا کر تعزیت کرنے سے کوئی واپس نہیں آتا لیکن کسی کی طرف سے تسلی کے دو بول تکلیف میں کمی ضرور کرتے ہیں۔ گوکہ کسی کی آمد سے جانے والا واپس نہیں آتا لیکن زندہ لوگوں کی حاضری احساس دلاتی ہے کہ ہم ایک مہذب معاشرے میں زندہ ہیں، ہم ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں تکلیف میں ساتھ دینے والوں کی کمی نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمران عوام کی جان و مال کو تحفظ دینے میں ناکام رہتے ہیں اس کے بعد وہ عام آدمی کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں۔ کبھی چند لاکھ سے خون خریدنے کی کوشش کرتے ہیں کبھی کیمروں کے لیے ہٹو بچو کے سائرن بجاتے مظلوموں کے گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ حکمران طبقہ آج تک یہ نہیں سمجھ سکا کہ دکھ کی گھڑی میں شریک ہونا احساس کے رشتے کا اظہار ہے۔ زندگی احساس کا نام ہے اگر احساس ہی ختم ہو جائے تو انسان اور جانور میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ جرائم پیشہ افراد نہتے افراد پر گولیاں برساتے ہوئے درندے بنے ہوتے ہیں وہ احساس سے عاری ہوتے ہیں، ڈکیتیاں کرنے والے بھی احساس سے عاری ہوتے ہیں وہ بھی یہ نہیں سوچتے کہ جسے وہ لوٹ رہے ہیں اس کی نجانے کیا ضروریات ہیں، جسے لوٹا جا رہا ہے اس کی عمر بھر کی جمع پونجی لوٹی جا رہی ہے، اس کی اولاد کی پڑھائی، بچیوں کی شادیوں کا سامان ہو گا لیکن احساس سے عاری افراد لوٹ مار میں سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ یہ احساس کا رشتہ ہی ہوتا ہے جو انسان کو انسانوں سے پیار کرنا سکھاتا ہے، یہ احساس کا رشتہ ہی انسانوں کو جانوروں کا بھی خیال رکھنے کا درس دیتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اپنے پالتو جانوروں کو تو کھانے کھلانے اور ان کے ساتھ کھیلنے کی تصاویر شیئر کرتے ہیں لیکن شاید وہ یہ نہیں جانتے قوم کے بچوں کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں، کھیلنے کے لیے کھلونے نہیں ہیں۔ شریف برادران یہ نہیں جانتے کہ گولیوں کی تکلیف کیا ہوتی ہے اور کسی خاندان کا واحد سہارا چھن جائے تو ان مظلوموں پر کیا بیتے گی۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ بھوک کی اذیت کیا ہوتی ہے، وہ یہ نہیں جانتے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی بیروزگاری کہ اذیت کیا ہوتی ہے، وہ یہ نہیں جانتے کہ حق تلفی اور احساس محرومی کیسے نسلوں کو تباہ کرتی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کو پانی نہ ملنے کی تکلیف کا احساس نہیں ہے، نہ وہ یہ جانتے ہیں کہ سندھ میں نجانے کتنے ہی لوگ پانی نہ ملنے سے زندگی کی بازی ہار گئے نہ وہ یہ جانتے ہیں ادویات کی کمی کتنی تکلیف دہ ہوتی ہے نہ وہ یہ جانتے ہیں کہ سندھ میں نجانے کتنے انسان صحت کی سہولیات کہ عدم دستیابی کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ پرویز مشرف نہیں جانتے کہ کسی گھر کا سربراہ لاپتہ ہو جائے تو اس کے والدین بیوی بچے کس اذیت میں زندگی گذارتے ہیں، وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ ڈرون حملے میں مرنے والے گتنے بیگناہوں کے خاندان آج بھی اذیت میں زندگی گذار رہے ہیں۔ یہ سب احساس سے عاری افراد کے نام لیے گئے ہیں آج اگر عوام میں کہیں احساس کی کمی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے حکمرانوں نے کبھی عوام کو احساس کی نعمت سے لطف اندوز ہونے ہی نہیں دیا۔ وزیراعظم عمران خان کو احساس سے عاری تو نہیں قرار دیا جا سکتا لیکن شاید ایوان اقتدار کا حصہ بننے کے بعد ان میں بھی پرویز مشرف، میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی طرح عام آدمی کے جذبات کو سمجھنے کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ دعا ہے کہ ہمیں ایسا حکمران نصیب ہو جسے انسانوں اور جانوروں کی ضروریات کا احساس ہو، وہ قوم کی حقیقی معنوں میں تربیت کرے۔ حکمران مرنے والوں کے لواحقین کو معاوضہ دینے کے بجائے زندہ انسانوں پر سرمایہ خرچ کریں۔ لاشوں کو خریدنے کا کاروبار بند کر کے زندگی کی قیمت میں اضافہ کریں۔
سانحہ مچھ کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو دیکھا جائے تو وزراء کی شدت پسندانہ سوچ نے بھی معاملات کو خراب کیا ہے۔ میرا یہ عاجزانہ مشورہ وزیراعظم پاکستان کے لیے ہے کہ وہ شر شیخ رشید سے محفوظ رہنے کی کوشش کریں اگر وزیراعظم شیخ رشید کے مشوروں پر عمل کریں گے تو انہیں سیاسی طور پر بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور عوامی سطح پر ان کی مقبولیت کو بھی نقصان پہنچے گا۔ شیخ رشید خوشامدی ہیں ان کا ملکی سیاست میں کوئی تعمیری کردار نظر نہیں آتا۔ مختلف حکومتوں تو اور مختلف بڑی سیاسی جماعتوں کی خوشامد بڑے اداروں کی تباہی کے علاوہ ان کے کریڈٹ پر کچھ نہیں ہے بدقسمتی ہے کہ وہ ملک کے وزیر داخلہ ہیں اور وزیر اعظم کو غلط مشورے دینے میں بھی پیش پیش ہیں۔ سانحہ مچھ کے بعد اگر کسی نے وزیراعظم کو کوئٹہ جانے سے روکا تو ان میں شیخ رشید بھی شامل ہیں اس قسم کے مشوروں کے بعد بھی اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک کے سب سے زیادہ سمجھدار اور تجربہ کار سیاست دان ہیں تو یہ پاکستان تحریکِ انصاف کی بدقسمتی ہے کہ وہ اس کے دور میں پہلے وزیر ریلوے تھے اب وزیر داخلہ ہیں۔
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نیب کے پیچھے پڑے ہیں۔ آپس کی لڑائی میں نیب کا کوئی نقصان ہوتا ہے یا پھر سلیم مانڈوی والا دیگر سیاستدانوں کی طرح نیب کے شکنجے میں آتے ہیں اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا۔ یہ بات طے ہے کہ ملک میں کرپشن کا خاتمہ ہونا چاہیے کرپشن سرکاری اداروں میں ہو یا غیر سرکاری اداروں میں ہو کسی بھی جگہ لوٹ مار کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ کیوں کہ کہ کیوں کہ کرپشن جہاں کہیں بھی ہو گی غریب آدمی کا پیسہ کھایا جائے گا، عام آدمی کا استحصال ہو گا اور جو پیسہ عام آدمی پر خرچ ہونا ہے وہ طاقتور افراد طاقت اور تعلقات کے زور پر ہڑپ کر جائیں گے۔ اس لیے کسی بھی سطح پر کرپشن وہ سرکاری ادارے میں ہو یا کسی غیر سرکاری ادارے میں اس کا خاتمہ ضروری ہے۔ سلیم مانڈوی والا کو میثاق معیشت شدت سے یاد آرہا ہے انہیں یہ میثاق معیشت اس وقت کیوں یاد نہ آیا جب لوٹ مار ہو رہی تھی، سرکاری اداروں کا بیڑہ غرق کیا جارہا تھا، سیاست دان قومی خزانہ لوٹ کر پیسہ بیرون ملک منتقل کر رہے تھے۔ ایک میثاق ملکی خزانے کو بچانے اور اس ہے تحفظ کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ نیب کے طریقہ کار کام کرنے کے انداز پر نظر ثانی ہونی چاہیے۔ لیکن سیاستدانوں کے لیے بھی تو کوئی ضابطہ اخلاق ہونا چاہیے یا سیاستدانوں پر کوئی ضابطہ اخلاق لاگو نہیں ہوتا۔ جب چاہتے ہیں جہاں چاہتے ہیں لوٹ مار کرتے ہیں قومی خزانے کو لوٹتے ہیں ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کرتے ہیں اور جب قانون حرکت میں آتا ہے تو پھر چیخ و پکار شروع ہوتی ہے۔ اگر نیب کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے تو ضرور کیجئے لیکن سیاست دان اپنے طور طریقے بھی تو ٹھیک کریں۔ مختلف سیاسی جماعتوں میں شامل تمام بڑے لوگ جن کو آج نیب کی طرف سے مسائل کا سامنا ہے یہ اپنے اعمال پر بھی تو کچھ توجہ دیں ان کے دلوں میں رحم کیوں نہیں آتا یہ کود سے گور تک ہر وقت مال بنانے کے منصوبے کیوں بناتے رہتے ہیں۔ ملک میں آج ایک بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے کیا سلیم مانڈوی والا اور ان کے ساتھی سیاستدانوں کو اس کا کوئی احساس ہے اگر احساس ہے تو اپنے اقدامات عوام کے سامنے رکھیں کہ غربت کو ختم کرنے کے لیے کیا کچھ ہے۔ خدارا اس ملک پر رحم کریں کریں اس ملک کے غریب عوام پر رحم کریں۔ اس ملک کے بے بس اور مظلوم عوام پر رحم کریں۔ اس ملک کی معیشت کو اگر نیب سے بچانا ہے تو اس ملک کی معیشت کو کرپٹ سیاستدانوں سے بچانا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔