’’JNU مانگے آزادی‘کشمیر مانگے آزادی‘ ہم لیکر رہیں گے آزادی‘ ہم نہیں جھکیں گے‘ارے سن لو مودی‘ آزادی‘‘! یہ وہ نعرے ہیں جو دہلی سے لے کر ممبئی اور کلکتہ سمیت بھارت کے مختلف حصوں سے بلند ہو رہے ہیں۔ ان فلک شگاف نعروں کا سیاق و سباق کچھ یوں ہے کہ 5 جنوری کو جواہرلعل نہرو یونیورسٹی جو کہ بھارت کا ایک پریمیم انسٹی ٹیوٹ ہے‘ اس میں ان سٹوڈنٹس کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جنہوں نے سٹیزن شپ ایکٹ کے خلاف مظاہرے کیے تھے۔ وائرل ویڈیوز میں گھائل سٹوڈنٹس کا کہنا ہے کہ نقاب پوش فسادیوں کا تعلق بی جے پی سے ہے۔ جنہوں نے ہاتھوں میں ڈنڈے تھام رکھے تھے۔ اب یہاں پر سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اس دن کیمپس کے وائس چانسلر کہاں تھے؟ سیکورٹی کدھر غائب تھی ‘ گھسنے والا گروہ جس کے بارے میں بھارتی میڈیا میں چہ مگوئیاں ہورہی ہیں کہ یہ مسلم سٹوڈنٹس تھے‘ اگر یہ مسلم سٹوڈنٹس تھے تو ان کی بائیو میٹرک کیوں نہیں ہوئی؟ ان کی تفصیلات کو منظرِ عام پر کیوں نہیں لایا گیا۔ اگر وہ سٹوڈنٹس تھے تو اب تک پولیس نے کاروائی کیوں نہیں کی! بلاشبہ یہ مودی سرکار کی ملی بھگت ہے۔
اس واقعہ سے قبل جامعہ ملیہ کے سٹوڈنٹس کو بھی زدوکوب کیا گیا۔ اسکے علاوہ گجرات میں بھی مودی نے ظلم و جبر کے آرڈرز دینے سے دریغ نہیں کیا۔ ان تمام حالات کے تناظر میں 7 جنوری کو ملین بلین پر ستاروں کے دلوں پر راج کرنے والی اداکارہ دیپیکا پاڈکون ایثار‘ غم گساری اور ہمدردی کے جذبہ کے تحت سٹوڈنٹس کی احتجاجی ریلی میں تقریباً 10 منٹ تک شریک رہیں۔ ان کی آنکھیں نم تھیں مگر وہ خاموش تھیں۔ ان کی خاموشی نے ہندوستان کی سیاست‘ ٹوئیٹر‘ فیس بک نیز ہر جگہ پر سنسنی پھیلا دی ہے۔ بی جے پی کے تاجندر پال سنگھ بگاکا عصبیت بھرا ٹوئیٹ کہ جس میں بھارتی عوام سے پوچھا گیا کہ آپ افضل گینگ اور ٹکڑے ٹکڑے گینگ کو تقویت دینے والی دیپیکا کا بائیکاٹ کریں گے؟ بس اس ٹوئیٹ کے بعد تو پورے سوشل میڈیا پر # I Support Depika، # Bycott Depika ، # I Stand with depika، ہیش ٹیگ کی ریس لگ گئی ہے۔ دیپیکا کی محض 10 منٹ کی موجودگی نے پورے بھارت کو دو حصوں میں بانٹ دیاہے کہ دیپیکا صحیح ہیں یا غلط؟! کنفیوژن اور غلط فہمیوں کا پہاڑ کھڑا ہوگیا کہ کیا دیپیکا غدار ہیں یا پاکستانی ہوگئی ہیں؟ یا دیپیکا فلم کی پروموشن کے لیے ایسے اسٹنٹ لے رہی ہیں۔ ان کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا گیا ہے یہاں تک کہ ان کے سیاسی تعلق کو 2010ء کی ویڈیو سے ثابت کیا گیا کہ یہ راہول گاندھی کی طرف جھکائو رکھتی ہیں۔ یعنی اتنی تنگ نظری! اگر دیپیکا سرکار کے ساتھ سٹینڈ لیتی تو کیا پھر سب صحیح تھا؟۔ قارئین اس چیز کو ذہن میں رکھے گا کہ نئے سال 2020ء میں بالی وڈکی نئی فلم چھپاک (CHAPPAK) 10جنوری کو یلیز ہو رہی ہے۔ اب اس پر نت نئے اعتراضات نے جنم لیا ہے کہ ریلیز سے دو دن پہلے ریلی میں شرکت کا کیا جواز ہے؟ یہ فلم دیکھنی چاہیے یا کہ نہیں۔ بھارتیو! اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دیپیکا نے بھارتی معاشرے کی بہتری اور استحکام کیلئے ایسے نازک معاملے پر فلم بنائی ہے جس میں تیزاب سے متاثرہ خواتین کے جذبات واحساسات کو بیان کیا گیا ہے۔ فلم کی USB صرف اور صرف یہی ہے کہ سوسائٹی میں ایسے متاثرین کو محبت اور حوصلے سے نئی زندگی دی جائے ان کی زندگی کو تلخ بنانے کی بجائے آسان بنایا جائے۔ علاوہ ازیں یہ نکتہ بھی فلم کا روح رواں ہے کہ ایسڈ بیچنے والوںپر سخت عائد ہونی چاہیے۔ جو کہ دکانوں پر بآسانی دستیاب ہوتا ہے اور سراسر لوگوں کی بربادی کا سامان ہے۔ قارئین یہ وہ پیغام ہے جو کسی بھی مسلک، فرقہ، مذہب، عقائد، جانبداری سے پاک ہے۔ اس میں کسی شرپسند عناصر کی کاروائی کا کوئی تعلق ہی نہیں۔ یہ خیر کا پیغام ہے اور سب کیلئے عام ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بھارتی میڈیا کی مکمل کوشش ہے کہ کسی طرح سے یہ فلم فلاپ ہو جائے تا کہ آئندہ بالی وڈ اداکار حکومت کے خلاف اتنی جرات کا مظاہرہ نہ کریں۔ اس میں تردد کی کوئی گنجائش نہیں کہ چھپاک فلم کی کیمسٹری غضب کی ہے اور وہ کروڑوں کا بزنس کر سکتی ہے اگر دیپیکا کی شخصیت کو منفی رخ سے نہ دیکھا جائے۔ دیپیکا اس کی ’’پروڈ یوسر ‘‘بھی ہیں، حق سچ کے لیے آواز بلند کرنے والوں کا ساتھ دے کر دیپیکا نے اس بات کی بھی پرواہ نہیں کی کہ انہیں مستقبل میں اس فلم سمیت کتنا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ جس ادا کار نے پاکستان تو کیا بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کی حمایت میں ہوں ہاں بھی کیا انہیں اینٹی انڈین قرار دے کر زندگی تنگ کر دی گئی۔ اب اس نہج پر کہ جس پر بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا ہے دیپیکا کا وہاں جا کر مثبت تاثر دینا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ واقعی میں ایک بہادر اداکارہ ہیں اور بھارت میں ایسے لوگ بھی ہیں جو کہ سچائی کیلئے اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ تصویر کا دوسرا رخ بھارتی سرکار کا مکرو چہرا دیکھاتا ہے۔ یہ ایک سیکولر اسٹیٹ نہیں ہے جسکا دعویٰ گاندھی نے کیا تھا۔ بھارت میں جمہوریت نہیں ہے۔ بھارت میں آزادی رائے مودی کے بل بوتے پر سلب کر لی گئی ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024