بھارت دہشت گردی سے رجوع کرلے تو خطہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے
کورکمانڈرز کانفرنس میں بھارتی سرحدی خلاف ورزیوں کا جائزہ اور بھارتی وزیر خارجہ کا دہشتگردوںکیخلاف کارروائی کا مطالبہ
کورکمانڈرز کانفرنس گزشتہ روز جی ایچ کیو میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیرصدارت منعقد ہوئی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق شرکاء کانفرنس نے ملک میں قیام امن کیلئے کی جانیوالی کوششیں جاری رکھنے اور علاقائی امن کیلئے تمام اقدامات کی حمایت پر اتفاق کیا۔ کانفرنس میںملک کی سلامتی کے حالات، جیو سٹرٹیجک صورتحال اور جاری آپریشنز کا جائزہ لیا گیا۔ کور کمانڈرز کانفرنس کے شرکاء نے کنٹرول لائن پر بھارت کی جانب سے سرحدی اور جنگ بندی کی خلاف ورزیوں اور معصوم شہریوں کو دانستہ نشانہ بنانے سمیت مشرقی سرحدوں پر سلامتی کی صورتحال کا بھی جائزہ لیا۔ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا معاملہ اور افغان مفاہمتی عمل بھی زیر غور آیا۔ اجلاس کے شرکاء نے علاقائی امن اور ملک میں قیام امن یقینی بنانے کیلئے تمام کوششیں جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ کورکمانڈر کانفرنس میں بھارتی سیاسی و عسکری قیادت کے حالیہ بیانات پر بھی غور کیا گیا جبکہ پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے کے عمل کو مقررہ وقت میں مکمل کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔دریں اثنابھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے کہا ہے پاکستان دہشتگردوں کیخلاف کارروائی کرتا ہے تو بھارت پورا ساتھ دیگا۔ یقین ہے کہ دونو ں ملک مل کر اس خطرے کا کامیابی سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا اگر پاکستان دہشتگردوں اور ان کی تنظیموں کیخلاف موثر کارروائی کرتا ہے تو بھارت پاکستان کا ساتھ دیگا۔ اس سے نہ صرف دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری آئیگی بلکہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام قائم ہو گا۔
پاک فوج کی اولین ذمہ داری ملکی سرحدوں کی حفاظت اور نگرانی ہے۔ پاک فوج یہ فریضہ بڑی بہادری اور جانفشانی سے ادا کررہی ہے۔ اسکے علاوہ پاک فوج کو آئین کے مطابق جب بھی کوئی کردار دیا گیا‘ اس میں وہ حکومت اور قوم کی توقعات سے بڑھ کر سرخرو ہوئی۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کی افغانستان پر یلغار میں پاکستان نے غیرمشروط امریکہ اور اسکے چالیس سے زائد اتحادیوں کا ساتھ دیا۔ افغانستان میں 17 سال سے دہشت گردی کیخلاف جنگ جاری ہے‘ امریکہ کا ساتھ دینے کی پاداش میں پاکستان بھی بری طرح دہشت گردی کے شعلوں کی لپیٹ میں آگیا۔ افغانستان سے پاکستان کی مدد سے طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا تو طالبان رہنمائوں نے گوریلا جنگ شروع کردی۔ 27 سو کلو میٹر اوپن بارڈر ان لوگوں کے پاکستان میں داخلے کیلئے کھلا تھا۔ بہت سے طالبان پاکستان چلے آئے جہاں پہلے سے تیس لاکھ کے قریب افغان باشندے مہاجرین کی صورت میں موجود تھے۔ افغانستان سے راہ فرار اختیار کرنیوالوں کو پاکستان میں انکے ہم خیال طبقے کی طرف سے بھی پذیرائی ملی۔ پاکستان میں بھی تحریک طالبان پاکستان کے نام سے ایک تنظیم نے جنم لیا جس کی بنیاد اور مقاصد میں شدت پسندی شامل تھی۔ اس نے امریکہ کا ساتھ دینے پر پاکستان کیخلاف محاذ کھول کر اسے بدترین دہشت گردی کا شکار کردیا۔ روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی کے کئی واقعات ہوتے تھے۔ شمالی وزیرستان ان کا گڑھ اور مضبوط ٹھکانوں کا مرکز بن گیا۔ شمالی وزیرستان کو آزاد ریاست قرار دینے کے مطالبات سامنے آنے لگے۔ ملک ان کا یرغمال بنا نظر آرہا تھا۔ حکومتیں بے بسی کی تصویر بن چکی تھیں۔ انکے مطالبات پر سوات میں انکی مرضی کا ’’نظام‘‘ نافذ کرنے پر آمادگی ظاہر کردی۔ مگر انکی دہشت گردی میں کمی نہ آئی تو پاک فوج کو محدود اپریشن کرنا پڑا۔ اگلی حکومت بھی دہشت گردی کے سامنے سرنڈر کرتی نظر آئی اور دہشت گردی سے نجات کی سبیل اسے مذاکرات میں ہی نظر آئی۔ ایک بااثر حکومتی حلقے کے اصرار پر مذاکرات ہوئے۔ مذاکرات کے دوران بھی یہ بدترین دہشت گردی کا ارتکاب کرتے رہے۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق پاک فوج کو ان کیخلاف اپریشن کرنا پڑا جس میں خاطرخواہ کامیابی ملی مگر دہشت گردوں اور دہشت گردی کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا۔ دہشت گردی کے خاتمہ کے مقدس کاز میں پاک فوج قربانیوں کی تاریخ رقم کررہی ہے۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاک فوج کے 10 ہزار سے زائد سپوت اور 60 ہزار پاکستانی شہید ہوچکے ہیں۔ 17 سال میں امریکہ اور اسکے پچاس کے قریب اتحادی ممالک کا اتنا جانی نقصان نہیں ہوا‘ جتنا پاکستان کو امریکہ کی اس جنگ میں ہوا۔
آج اپریشن ردالفساد جاری ہے جو اپریشن ضرب عضب کا فالواپ ہے۔ اس سے قبل پاک فوج نے راہ حق1‘ راہ حق 2‘ صراط مستقیم‘ بلیک تھنڈر سٹارم‘ شیردل‘ راہ حق 111‘ اور راہ راست‘ سوات اور راہ نجات اپریشن کئے۔ پاک فوج کو دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ اپریشن والے علاقوں سے نقل مکانی کرنیوالے افراد کی دوبارہ آباد کاری کی ذمہ داری بھی دی گئی۔ پاک فوج ان لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے بھی کام کررہی ہے۔ سکول‘ ہسپتال‘ سڑکیں تعمیر کی جارہی ہیں‘ دہشت گردوں کو کچل کر رکھ دینے میں پاک فوج کوئی دقیقہ فروگزاشت کررہی ہے نہ حکومت پاک فوج کا اس معاملے میں ساتھ دینے میں کوئی کسر چھوڑ رہی ہے۔ اس مقصد کیلئے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا جس کے تحت فوجی عدالتیں بھی قائم کی گئیں۔
افغانستان کے ساتھ کھلا بارڈر دہشت گردوں‘ تخریب کاروں اور جاسوسوں کی آمدورفت کیلئے استعمال ہوتا رہا ہے۔ خصوصی طور پر بھارت افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال کررہا ہے۔پاکستان اسکے ثبوت امریکہ اور اقوام متحدہ کے سامنے رکھ چکا ہے۔ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق افغانستان میں بھارت کی طفیلی انتظامیہ افغانستان میں دہشت گردی کا الزام پاکستان پر لگاتی رہی ہے۔ افغانستان کے تحفظات اگر درست ہیں تو اسکی طرف سے طویل سرحد سیل کرنے کا مطالبہ سامنے آنا چاہیے تھا مگر نہ صرف ایسا کوئی تقاضا سامنے نہیں آیا بلکہ پاکستان نے بارڈر مینجمنٹ کے تحت باڑ اور انٹری پوائنٹس پر گیٹ لگانے کا عمل شروع کیا تو اس پر افغان انتظامیہ انگاروں پر لوٹتی نظر آئی۔ بارڈر مینجمنٹ کی شدید مخالفت کرتے ہوئے گیٹ گرانے کیلئے حملے کئے گئے جو دہشت گردی کے خاتمے کیلئے اسکی بدنیتی کا کھلا اظہار ہے لیکن پاکستان نے افغان انتظامیہ کی ایسی اوچھی حرکتوں کو درخورِاعتنا نہ سمجھا۔ سرحد پر باڑ لگانے کے زیادہ تر مراحل مکمل ہوچکے ہیں۔ دہشت گردی کی سرحد کے آرپار آمدورفت روکنے کا یہی بہترین اور مؤثر طریقہ کار ہے۔
پاکستان کا مغربی سرحد کے ساتھ مشرقی بارڈر بھی محفوظ نہیں۔ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر آئے روز بھارت کی طرف سے اشتعال انگیزی ہوتی ہے جس کا پاکستان کی طرف سے منہ توڑ جواب دیا جاتا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں حریت تحریک میں شدت آنے سے بوکھلا گیا‘ اس نے زچ ہو کر کٹھ پتلی حکومت کا خاتمہ کرکے گورنر راج لگایا مگر کشمیریوں کے جذبہ حریت میں کوئی کمی نہ آسکی تو صدر راج نافذ کردیا گیا۔ اس پر بھی بھارت کے مذموم مقاصد پورے ہونے کا امکان نہیں۔ تحریک آزادی بام عروج پر پہنچی تو مقبوضہ کشمیر بھارت کو ہاتھوں سے نکلتا محسوس ہورہا ہے۔ لہٰذا بھارت نے جہاں کشمیریوں پر بربریت میں اضافہ کردیا وہیں لائن آف کنٹرول پر بھی شرانگیزی بڑھا دی ہے۔ پاک فوج مشرقی اور مغربی دونوں محاذوں پر بھارت کو بھرپور جواب دے رہی ہے۔
خطے اور وادی میں دہشت گردی کی آگ بھارت نے بھڑکا رکھی ہے‘ وہ مقبوضہ کشمیر پر اپنا قبضہ مضبوط کرنے کیلئے انسانیت کے درجے کی آخری حد تک گر چکا ہے۔ گزشتہ روز ایک بار پھر جموں میں انتہاء پسند ہندوئوں نے کمسن بچی کو درندگی کا نشانہ بنایا‘ اس سے قبل بھارتی فورسز چادر اور چار دیواری کا تقدس بری طرح مجروح کرتی رہی ہیں۔ گزشتہ روز ہی پلوامہ میں ایک نوجوان کو شہید کردیا گیا۔
چور مچائے شور‘ بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ کہتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کیخلاف کارروائی کرے تو بھارت پورا ساتھ دیگا۔ حالانکہ بھارت خطہ میں امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کا خود ذمہ دار ہے‘ جس کے ٹھوس ثبوت بھی موجود ہیں۔ پاکستان دہشت گردوں کیخلاف بھرپور کارروائی کررہا ہے۔ بھارت دہشت گردوں کی پشت پناہی نہ کرے اور مقبوضہ کشمیر میں دہشتگردانہ کردار سے رجوع کرتے ہوئے کشمیریوں کو استصواب کا حق دے دے تو پاک بھارت تعلقات میں بہتری آسکتی ہے اور خطہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔