چیف جسٹس سپریم کورٹ کا آئندہ ہفتے سے عدالتی نظام میں اصلاحات لانے کا اعلان اور شاہد خاقان کی خود کو وزیراعظم نہ سمجھنے کی سوچ
چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے عدالتی نظام میں اصلاحات لانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ میں آئندہ ہفتے سے اصلاحات شروع ہو جائیں گی۔ گزشتہ روز سی ڈی اے قوانین میں عدم مطابقت سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران فاضل چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتایا جائے‘ نظام عدل میں اصلاحات لانا کس کا کام ہے اور آج تک پارلیمنٹ نے نظام عدل میں اصلاحات کیلئے کتنے قوانین بنائے۔ فاضل چیف جسٹس نے باور کرایا کہ اب ہم نظام عدل میں اصلاحات لے کر آئینگے پھر کوئی یہ نہ کہے کہ سپریم کورٹ عدالتی دائرۂ کار اختیار سے تجاوز کررہی ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے کمرۂ عدالت میں موجود وزیر مملکت کیڈ طارق فیصل چودھری سے استفسار کیا کہ پوری دنیا میں قانون سازی کس کی ذمہ داری ہوتی ہے جس پر وزیر کیڈ نے کہا کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا کام ہوتا ہے۔ فاضل عدالت نے ملک بھر میں احتساب عدالتوں کی خالی اسامیوں پر ججوں کے تقرر کا بھی حکم صادر کیا۔ فاضل چیف جسٹس نے کراچی کے سرکاری ہسپتالوں کی صورتحال کا بھی ازخود نوٹس لیا اور ان ہسپتالوں کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ حضرات کو 13‘ جنوری کیلئے کراچی رجسٹری میں طلب کرلیا۔ اسی طرح فاضل چیف جسٹس نے وی وی آئی پیز کی نقل و حرکت کے دوران ٹریفک کی بندش کا بھی ازخود نوٹس لے کر متعلقہ اداروں سے رپورٹ طلب کرلی ہے جبکہ انہوں نے سندھ کے نجی میڈیکل کالجوں میں داخلے کا نوٹس لیتے ہوئے تمام نجی میڈیکل کالجوں کے سی ای اوز کو 13 جنوری کو پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے ملک بھر کی جیلوں میں قیدیوں کو پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی کا بھی ازخود نوٹس لیا ہے اور اس سلسلہ میں چاروں صوبوں کے آئی جیز جیل خانہ جات سے مفصل رپورٹیں طلب کرلی ہیں۔
آج ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی ہے تو امور حکومت و مملکت کی آئین و قانون کے تقاضوں کے مطابق ہی انجام دہی ہونی ہے۔ آئین کے تحت ریاست کے تین بنیادی ستون مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات اور حدودوقیود متعین ہیں چنانچہ ریاست کے ان تینوں ستونوں کے ماتحت ریاستی انتظامی اداروں نے بھی آئین و قانون میں وضع اپنی حدودوقیود میں رہ کر ہی فرائض سرانجام دینے ہوتے ہیں۔ آج ملک میں وفاقی پارلیمانی آئین رائج ہے تو اس میں متعینہ سسٹم کے تحت ہی عدل گستری سمیت حکومت و ریاست کے تمام معاملات چلائے جانے ہیں۔ اس سے ہی ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی کا تاثر پختہ ہو سکتاہے۔ ہمارا یہ المیہ ہے کہ اول تو ہمارا وطن عزیز اپنی تشکیل سے اب تک تقریباً آدھے عرصے کے دوران سرزمین بے آئین بنا رہا ہے جبکہ آئین کی حکمرانی والے عرصے میں بھی آئین کی حکمرانی کو اکثر بریکیں لگتی رہی ہیں اور ریاستی اداروں نے اپنی آئینی حدود سے باہر نکل کر دوسروں کے معاملات میں مداخلت اپنا شیوہ بنائے رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اب تک صحیح معنوں میں آئین و قانون کی حکمرانی کے تحت استوار ہی نہیں ہوسکا۔ آئین پاکستان کی بنیادی انسانی حقوق سے متعلق شقوں کے تحت ہر شہری کو صحت و تعلیم اور روزگار سمیت زندگی کے بنیادی لوازمات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ٹھہرائی گئی ہے اور ریاست کے ایماء پر یہ ذمہ داری حکومت نے متعلقہ اداروں کے ذریعے سرانجام دینا ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں آئین کے تحت ریاست کے بنیادی ستون انتظامیہ کے اختیارات اور ذمہ داریاں متعین کی گئی ہیں۔ اگر کوئی حکومت امور حکومت کی انجام دہی کے یہ لازمی تقاضے پورے نہیں کرتی اور ریاست کے شہریوں کو تعلیم‘ صحت‘ روزگار سمیت انکے بنیادی حقوق نہیں مل پاتے تو وہ اپنے ان حقوق کے حصول کیلئے ریاست کے دوسرے ستون عدلیہ سے رجوع کرسکتے ہیں جس کیلئے ہائیکورٹوں کو آئین کی دفعہ 199 اور سپریم کورٹ کو آئین کی دفعہ 184(3) کے تحت مفادعامہ کے معاملات کا نوٹس لینے اور متعلقہ شہریوں کی دادرسی کرنے کے اختیارات حاصل ہیں۔ اگر حکومت (انتظامیہ) شہریوں کے بنیادی حقوق کے معاملہ میں اپنی متعینہ آئینی ذمہ داریاں خود ادا کررہی ہو تو کسی شہری کو دادرسی کیلئے عدلیہ کا رخ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔ آئین و قانون کی حکمرانی کا تو یہی تصور ہے کہ ریاست کے ہر شہری کی روزگار حیات سے متعلق تمام بنیادی ضرورتیں پوری ہورہی ہیں جس کیلئے ریاست کے بنیادی ستون مقننہ کو آئین کے تحت قانون سازی کے اختیارات تفویض کئے گئے ہیں جبکہ آئین کی تشکیل یا اس میں ردوبدل کا اختیار بھی مقننہ (پارلیمنٹ) کا ہے۔
جب ریاست کے بنیادی ستونوں کے آئینی اختیارات اور انکی حدودوقیود میں کسی قسم کا ابہام نہیں ہے تو پھر آئین و قانون کی حکمرانی کے مطابق ہماری سمت اب تک کیوں متعین نہیں ہو سکی۔ ہمارے سسٹم میں خرابی ہی ریاستی اداروں کی جانب سے ایک دوسرے کے اختیارات تسلیم نہ کرنے اور اپنی ذمہ داریاں چھوڑ کر دوسروں کی ذمہ داریوں میں مداخلت کی روش اختیار کرنے سے پیدا ہوئی ہے۔ اس خرابی میں بنیادی کردار ریاستی ستون انتظامیہ کے تابع عساکر پاکستان کے بعض سربراہان کی ماورائے آئین اقدامات والی سوچ نے ادا کیا ہے جس نے صرف انتظامیہ (حکومت) کی اکھاڑ پچھاڑ میں کردار ادا کیا بلکہ اسکی طاقت والی سوچ کے حاوی ہونے کے باعث عدلیہ بھی اسکے ماورائے آئین اقدام پر صاد کرتی اور ان اقدامات کو نظریۂ ضرورت کے تحت آئینی تحفظ فراہم کرتی رہی ہے۔ اس سلسلہ میں صرف جنرل مشرف کو اپنے ماورائے آئین اقدامات پر عوام کے علاوہ عدلیہ کی جانب سے بھی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور عدالتی فعالیت کا راستہ اختیار کرنیوالے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی مشرف کے ہاتھوں معطلی کے بعد انہی کے ایماء پر آئین و قانون کی حکمرانی تسلیم کرانے کیلئے سول سوسائٹی کی تحریک شروع ہوئی جو کسی جرنیلی آمر کیلئے پہلا چیلنج تھا۔ عوام اور انکے نمائندہ سیاست دانوں کی اس تحریک میں شمولیت کے نتیجہ میں جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت عدلیہ بحال ہوئی تو یہ ایک قسم کی نئی عدلیہ تھی جس کے بحال ہونیوالے سربراہ نے معاشرے کی اصلاح کا بھی بیڑہ اٹھا لیا جس کیلئے عدلیہ کے ازخود اختیارات کو روبہ عمل لانے کا شدومد کے ساتھ سلسلہ شروع ہوا تو ریاستی ستون انتظامیہ کیلئے ’’آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا‘‘ والی صورتحال پیدا ہوگئی۔
بے شک عدلیہ کو آئین کی متعلقہ دفعات کے تحت مفادعامہ کے معاملات کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار حاصل ہے تاہم ایسا ہرگز نہیں کہ عدلیہ اپنے اصل فرائض سے صرفِ نظر کرکے صرف اپنے ازخود اختیارات کو ہی بروئے کار لانا شروع کر دے جبکہ اس صورتحال میں عدلیہ کی جانب سے امور حکومت و مملکت میں مداخلت کا تصور اجاگر ہوتا ہے جو درحقیقت انتظامیہ کی ذمہ داری کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس وقت عدل گستری بذاتِ خود بے شمار مسائل کا شکار ہے اور اس میں کئی اصلاح طلب پہلو ایسے ہیں جو اصلاح احوال کی نوبت نہ آنے کے باعث مجموعی طور پر آئینی جمہوری نظام میں ایسی خرابیوں کا باعث بن رہے ہیں جس کے نتیجہ میں عام آدمی میں محرومیوں کا احساس اجاگر ہوتا ہے تو عوام میں اضطراب کی کیفیت محسوس کرکے کچھ جرنیلی آمروں کے ذہنوں میں ماورائے آئین اقدام کی پرورش پاتی سوچ توانا ہونے لگتی ہے اور پھر آئین کے تحت قائم منتخب جمہوری نظام کیخلاف محلاتی سازشوں کے راستے ہموار ہونا شروع ہو جاتے ہیں جس کی نشاندہی ان دنوں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف شدومد کے ساتھ کررہے ہیں۔
ہمارا یہ المیہ ہے کہ آج حکومت و مملکت کا کوئی بھی کل پرزہ اپنی اصل جگہ پر قائم نہیں اور ہر کوئی دوسروں کی ڈفلی پر اپنا راگ الاپتا نظر آتا ہے۔ جس وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام میں سربراہ حکومت (وزیراعظم) کو اپنے وزیراعظم ہونے کا ہی یقین نہ ہو اور وہ ہر فورم پر یہ اعلان کرتے نظر آئیں کہ میاں نوازشریف ہی انکے وزیراعظم ہیں جو پانامہ کیس کے فیصلہ کے تحت نااہل ہو کر وزارت عظمیٰ کے منصب سے سبکدوش ہوچکے ہیں تو پھر ایگزیکٹو اتھارٹی کی رٹ کون تسلیم کریگا اور ریاست میں آئین و قانون کی حکمرانی کیونکر پیدا ہو پائے گی۔ یقیناً اس طرز عمل سے ہی دوسرے آئینی اداروں کو بھی ماورائے آئین سوچ کے تحت اپنی اتھارٹی تسلیم کرانے کا موقع ملتا ہے۔ اس سلسلہ میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ جمہوریت اور آئین کی حکمرانی کے ساتھ خود کو اور اپنے ادارے کو وابستہ کرنے کا عہد کررہے ہیں تو ریاستی ستون عدلیہ کے سربراہ عوام کے گوناںگوں حل طلب مسائل کو لے کر سسٹم کی اصلاح احوال کا بیڑہ اٹھائے نظر آتے ہیں جو عدلیہ کے روایتی کردار سے ہٹ کر خود ہسپتالوں اور دوسرے پبلک مقامات پر چھاپے مار کر وہاں موجود مسائل اور بے ضابطگیوں کی نشاندہی کررہے ہیں۔ یہ اپنے تئیں ایک اچھا اقدام ہے تاہم اس سے اصلاح احوال کے علاوہ انتظامیہ پر حاوی ہونے کا تاثر بھی اجاگر ہورہا ہے جو بہرحال آئین و قانون کی حکمرانی سے متضاد ہے۔ چنانچہ آپادھاپی کی فضا میں وزیر مذہبی امور سردار یوسف کو بھی اپنی وزارت سے متعلق معاملات پر وفاقی کابینہ کی کمیٹی کو بریفنگ کیلئے پرکاہ کی حیثیت نہ دینے کا موقع مل گیا ہے۔ یقینی بات ہے کہ آئینی اداروں کیلئے اپنے آئینی اختیارات اور ذمہ داریوں سے تجاوز کے دروازے کھلیں گے تو پھر اسکی کہیں انتہاء نہیں رہے گی۔
آج ملک میں ایسی ہی فضا بنتی نظر آتی ہے کہ ہر ذمہ دار کو بس اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے گریز کی سوجھ رہی ہے اور دوسروں کی ذمہ داریاں اپنے سر لینے کا سودا سمایا ہوا ہے جس سے اصلاح احوال کے بجائے سسٹم کو ایسی خرابیاں لاحق ہونے کا اندیشہ ہے جو پھر کسی بھی چارہ گری سے دور نہیں ہو پائیں گی۔ فاضل چیف جسٹس نے عدالتی نظام میں اصلاحات کا بیڑہ اٹھایا ہے تو انہیں یہ نیک کام بہرصورت پایۂ تکمیل کو پہنچانا چاہیے۔ اس کیلئے انکے پاس جو اپنے آئینی اختیارات موجود ہیں وہ انہیں استعمال کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں تاہم جو ذمہ داریاں دوسرے آئینی اداروں کی ہیں‘ وہ بہرصورت ان متعلقہ اداروں نے ہی سرانجام دینی ہیں۔ فاضل چیف جسٹس ان ذمہ داریوں کی جانب متعلقہ اداروں کی توجہ مبذول کراکے اصلاح احوال کے عمل میں تیزی لا سکتے ہیں تاہم اس توجہ دہی سے ریاست کے اندر ریاست کا تصور کم از کم عدلیہ کے ساتھ منسوب نہیں ہونا چاہیے کیونکہ عدلیہ ہی ایسے تصور کیخلاف دادرسی کا مجاز فورم ہے۔