بدھ ‘ 22 ؍ ربیع الثانی 1439 ھ‘ 10 ؍ جنوری 2018ء
شادی کی خبروں پر خان صاحب نے چپ توڑ دی‘ کیا شادی کی خواہش جرم ہے ؟۔ ٹویٹ جاری
بالآخر عمران خان نے بھی اپنی تیسری شادی کے حوالے سے خاموشی توڑتے ہوئے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ کیا شادی کی خواہش کرنا جرم ہے۔ قربان جایئے اس سادگی پر کیا یہ کوئی پسند کی شادی ہے جس کی خواہش پر عام طور پر نوجوان لڑکے یا لڑکی کے والدین بھڑک اٹھتے ہیں معاشرہ اور سماج درمیان میں آجاتا ہے اور وہ
چلو کہیں دور یہ سماج چھوڑ دیں
دنیا کے رسم ورواج توڑ دیں
کہتے پھرتے ہیں۔ یہ ایسا معاملہ بھی نہیں خیر سے یہ خان صاحب کی تیسری شادی ہے۔ وہ بھی جو وہ چھپا کر رکھنے کی کوشش کررہے تھے مگر جب معاملہ کھل گیا تو خاموشی اختیار کرلی۔ اب تو خان صاحب کی بہنیں بھی ایک بار پھر دہائی دیتی بنی گالہ جاکر حقائق تلاش کررہی ہیں کہ بھیا کے سر سہرا سجا ہے یا نہیں۔ اب خان صاحب کوئی لڑکے بالے تو ہیں نہیں عمررسیدہ شخص ہیں۔ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس کے رسم و رواجوں کا بھی انہیںپتہ ہے۔ یہ کوئی یورپ تو نہیں جہاں جب چاہے شادی کرنا یا طلاق دینا معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ یہاں یہ مسئلہ بہت سی زندگیوں اور گھرانوں سے جڑا ہوا ہے۔ اب خود خان صاحب کہہ رہے ہیں انہیں اپنے بچوں اور بشریٰ بی بی عرف پنکی کے گھر والوں کا خیال آرہا ہے۔ اگر ایسا تھا تو وہ انہیں پیرنی ہی رہنے دیتے بیوی بنانے کا نہ سوچتے۔
سینہ گزٹ اطلاعات تو یہ ہیں ۔ عمران خان کو شادی کے عوض وزارت عظمیٰ پلیٹ میں رکھ کر دیئے جانے کی نوید سنائی گئی تھی چنانچہ خان صاحب نے جو پہلے ہی بے صبرے ہیں جھٹ سے قبول کرلیا اب حکمرانی تو معلوم نہیں ملتی ہے یا نہیں فی الحال تو عوامی ردعمل کی وجہ سے شادی بھی مشکل میں پڑتی نظر آرہی ہے۔ لگتا ہے بے موسمی بارش کی طرح یہ شادی کی خواہش پیرنی اور انکے مرید کو راس نہیں آرہی۔ دیکھتے ہیں پردہ غائب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔ یہ بیل منڈھے چڑھتی بھی ہے یا نہیں۔ کہیں وزارت عظمیٰ کی طرح تیسری بار دولہا بننے کا خواب بھی ادھورا تو نہیں رہ جاتا…
٭٭٭٭٭٭
امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے جعلی نیوز ایوارڈ کا اعلان۔ سب سے زیادہ کرپٹ میڈیا کو ملے گا
اب کوئی پوچھے جاکر امریکی صدر ٹرمپ سے کہ وہ آخر کب تک یہ کھلنڈروں والے کام کرتے رہیں گے۔ اب تو انہیں صدر بنے عرصہ ہوگیا ہے۔ اب تو سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ یہ گلی محلے والے لڑکوں کی طرح ادھر ادھر تاک جھانک‘ دھینگامشتی‘ چھیڑچھاڑ‘ بلاوجہ دوسروں سے پنگا لینا اب چھوڑ دیں۔ اب تو دوسرے لوگ بھی باتیں بنانے لگے ہیں۔ ویسے تو سچ یہ بھی ہے کہ ایسا دلیرانہ اعلان صرف صدر ٹرمپ ہی کرسکتے ہیں۔انکی ہر بات انوکھی ہوتی ہے خود امریکی عوام اور عدالتیں بھی اب انکے احکامات کو سنجیدہ نہیں لیتیں کیونکہ وہ کسی رہنماء کے بجائے فلمی ولن یا جوکر لگتے ہیں جو ایسی بے سروپا باتیں کرتے ہیں۔ اب موصوف کی طرف سے جعلی نیوز ایوارڈ دینے کا اعلان ہوا ہے اور موصوف فرما رہے ہیں کہ یہ ایوارڈ ان کی طرف سے 17جنوری کوواشنگٹن میں سب سے کرپٹ اور جعلی خبریں دینے والے میڈیا کو دیا جائیگا۔ کون ہے جو ٹرمپ صاحب کو ہاتھ ہولا رکھنے یا عقل کے ناخن لینے کا مشورہ دے۔ ویسے بھی وہ نیویارک ٹائمز اور سی این این سمیت متعدد امریکی اخبارات پر سخت تنقید کرتے رہے ہیں اور بہت سے اخبارات وغیرہ کو تو سراسر جھوٹابھی کہنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔اب دیکھنا ہے ان کا یہ اعلیٰ کارکردگی ایوارڈ کس کو ملتا ہے۔ اسکے ساتھ وہ بھاری رقم کا انعام بھی رکھ دیتے تو بہت سے ادارے اور صحافی خودبخود اسکے حصول کی تمنا کرتے۔ اسکے حصول کیلئے ٹرمپ صاحب سے سفارشیں کرتے پھرتے۔
٭٭٭٭٭٭
عوام فیصلہ کریں میٹرو چاہئے یا غربت کا خاتمہ: بلاول زرداری
یہ تو بلاول صاحب نے عوام کو بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے کیونکہ ایک طرف پنجاب کی تیز رفتار ترقی کی علامت میٹرو ہے اور دوسری طرف سندھ میں تیز رفتاری سے نشوونما پانے والی غربت جس سے گزشتہ 10 برس سے سندھ پر حکومت کرنیوالی پیپلزپارٹی عوام کو نجات نہیں دلا سکی تو اب اس کا خاتمہ کون کریگا۔10 برسوں سے پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں ہی اندرون سندھ‘ تھر اور دیہی علاقوں میں غربت‘ خوراک کی کمی‘ طبی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے ہزاروں افراددنیا چھوڑ گئے۔ اسکے باوجود بلاول صاحب دعویٰ کررہے ہیں کہ ہم نے عوام کو فری طبی سہولتیں فراہم کی ہیں۔ شاید انہوں نے یہ سب کچھ وزیروں اور مشیروں کی طرف سے دی گئی بریفنگ میں سنا اور کاغذوں میں دیکھا ہوگا ۔ ذرا کبھی چھپ کر اصل صورتحال پر بھی نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ جن لوگوں نے پیپلزپارٹی کو ووٹ دیئے تھے‘ روٹی‘ کپڑا اور مکان کے نام پر وہ بزبان حال اب …؎
ہمارے خواب چوری ہوگئے ہیں
ہمیں راتوں کو نیند آتی نہیں ہے
کہتے ہوئے شاید کفِ افسوس ملتے ہیں مگر کیا کریں غریب انسانوں کی سب سے بڑی ضرورت روٹی‘ کپڑا اور مکان ہے جو خوش قسمتی سے پیپلزپارٹی کا روایتی نعرہ ہے اور وہ اس کا فائدہ اٹھاتی ہے اور اب تو طبی سہولتوں کا بھی جھانسہ دیا جانے لگا ہے ’’کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا‘‘
٭٭٭٭٭٭
آپ نے نااہل شخص کو ساتھ بٹھایا ہے‘صحافی کا سوال‘ قادری گول کرگئے
ایک تو صحافیوں کی عادت بھی بہت خراب ہے۔ آئو دیکھا نہ تائو موقع ملتے ہی ایسے سوالات داغتے ہیں کہ ہمارے شریف النفس قسم کے رہنماء دینی ہوں یا سیاسی‘ اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں۔ جب ایسا مرحلہ درپیش ہو تو جواب گول نہیں ہوگا تو کیا ترت جواب آئیگا۔ اب پریس کانفرنس میں مولانا طاہر القادری کے ساتھ جناب جہانگیر ترین بیٹھے تھے جو مولانا کے سیاسی کزن عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف کی نمائندگی کررہے تھے‘ اب اگر کسی کو اعتراض تھا تو وہ مودب ہوکر مولانا کو تنہائی میں لے جاکر ہاتھ پائوں چوم کر چھ سات قدم کے فاصلے پر دور کھڑا ہوکر یہ سوال کرسکتا تھا۔ یہ کیا بے ادبی کہ سب کے سامنے نامعقول قسم کی بات پوچھ لی۔ یہ تو صحافیوں کی خوش قسمتی ہے کہ ایسے منہ پھٹ ہونے کے باوجود مولانا ان کی باتوں سے اغماض برتتے ہیں ورنہ ان کے تیکھے تیوروں‘جلالی لہجے اور قوت گفتار کی تو ویسے ہی بہت دھوم ہے۔ میاں نواز شریف اور شہبازشریف کے بارے میں بولتے وقت انکی زبان شعلے اگلتی ہے۔ مگر جہانگیر ترین ان تمام الزامات کے باوجود انکے نزدیک پوتراور گنگا نہائے ہیں۔ عدالتی سزا نے انکی پاکدامنی کو متاثر نہیں کیا اس لئے مولانا انہیں ساتھ بٹھانے میں عار محسوس نہیں کرتے۔
٭٭٭٭٭٭