کوئی غلط رجسٹرڈ میڈیکل کالج معیار کے مطابق چل رہا ہے تو ہمیں اعتراض نہیں: چیف جسٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں پی ایم ڈی سی کے حوالے سے ازخود نوٹس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا پورے ملک میں ایک کتاب ،ایک بستہ اور ایک وردی ممکن ہے، ہمارے بچوں اور عام آدمی کے بچوں کے نظام تعلیم میں تفریق ہے، نظام تعلیم میں یکسانیت ہونی چاہیے ،تعلیم سے بڑھ کر کوئی زیور نہیں،بچوں کو تعلیم کی فراہمی کیلئے قانون بنانے والوں کو کوشش کرنی چاہیے، ایک سکول کی حالت زار پر ازخود نوٹس لیا وہاں سکول کی عمارت میں بھینسیں بندھی ہوئی ہیں، شائد وہاں کا وڈیرہ نہیں چاہتا بچے سکول جاکر تعلیم حاصل کریں۔ سپریم کورٹ نے سابق وزیر اور ضیاءالدین میڈیکل یونیورسٹی کے مالک ڈاکٹر عاصم آج بروز بدھ ذاتی حیثیت سے طلب کر رکھا ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہ میں تین رکنی بنچ نے سماعت کا آغاز کیا تو پی ایم ڈی سی کے وکیل اکرم شیخ نے کہا ڈاکٹر عاصم حسین نے85 میڈیکل کالج رجسٹرڈ کیے،90کالجز کو2007میں بغیر تصدیق کیے تیزی سے رجسٹرڈ کیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے معاملات درست سمت میں لیکر جانے ہیں، ماضی کی برائی مستقبل میں نہ ہو یہ ہمیں دیکھنا پڑے گا، وفاقی حکومت نے میڈیکل کالجز کے حوالے سے تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے، اگر کوئی کالج غلط رجسٹرڈ ہوا لیکن وہ اسٹینڈرڈ کے مطابق کام کررہا ہے تو ہمیں اعتراض نہیں ہوگا، نجی شعبہ تعلیم ملک میں خدمت کررہا ہے، خرابیاں بھی ہیں لیکن بہت سے اچھے ادارے بھی ہیں، ہم میڈیکل کالجز سسٹم کو تباہ نہیں کرنا چاہتے،چاہتے ہیں،ہم میڈیکل کالجز سسٹم کو درست کرنا چاہتے ہیں ۔عدالت نے پوچھا کہ کیا ڈاکٹر عاصم ملک میں موجود ہیں ۔پی ایم ڈی سی کے وکیل نے جواب دیا ڈاکٹر عاصم کی جانب سے لطیف کھوسہ پیش ہو رہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا ہم نے ڈاکٹر عاصم حسین کو کل کیلئے ذاتی حیثیت سے طلب کر رکھا ہے ۔پی ایم ڈی سی کے وکیل نے طالب علم فہد ملک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ا±س کا کیس یہ تھا کہ او لیول پا س کر کے جب اے لیول میں داخلہ لیا تو ا±س وقت 2016ریگولیشن نہیں تھے اس لیے اس کا اطلاق نہیں ہوسکتا ،اے لیول کے طالب علموں کیلئے میڈیکل کالج میں داخلے کیلئے دو طریقہ کار ہیں پہلا انٹری ٹیسٹ اور دوسرا پندرہ فیصد کوٹہ سسٹم ،اگر صرف اے لیوے کو ترجیح دی جائے تو پھر لورالئی ودیگر علاقوں کے طالب علم میڈیکل میں داخلہ نہیں لے سکیں گے ۔اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کیا یہ ممکن ہے کہ پورے ملک میں ایک کتاب، ایک بستہ اور ایک وردی ہو،میں بات کرتا ہوں اخبار والے سرخی لگا دیتے ہیں، ہم خود معصوم بچوں میں تفریق کررہے ہیں،ہمارے بچوں اور عام آدمی کے بچوں کے نظام تعلیم میں تفریق ہے، نظام تعلیم میں یکسانیت ہونی چاہیے، اے لیول کرنے والے بچے بھی محنتی ہیں ،چاہتے ہیں یکسانیت کی بنیادوں پر نظام تعلیم ہو، کیا ریاست آئین کے تحت اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے، ہم ایک دن میں سب کچھ تبدیل نہیں کرسکتے، آہستہ آہستہ چیزوں میں بہتری لائیں گے، آرٹیکل 25 اے کہتا ہے 5 سال سے 16 سال تک کے بچوں کو تعلیم دینا ریاستی زمہ داری ہے، کیا ریاست تعلیم کی فراہمی سے متعلق فرائض سرانجام دے رہی ہے۔چیف جسٹس نے کہا نظام تعلیم کیلئے ہمارے قانون بنانے والوں کو کچھ کرنا ہوگا،میں تعلیم کیلئے لوگوں کو اکھٹا کرنے لگا ہوں، ہم تاخیر میں بہتری لائیں گے،1962 میں جس مقدمے کو دائر کیا گیا اس کی سماعت 30 جنوری کو سپریم کورٹ میں ہوگی۔چیف جسٹس نے کہا ملک کو جو نقصان ہوا وہ ہماری وجہ سے ہے، ملک کو نقصان پہنچانے میں معصوم بچوں کا کوئی قصور نہیں،پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے، وہ تعلیم کیلئے کوشش کررہا ہوگا،بچوں کو دینے کیلئے تعلیم سے بہتر کوئی زیور نہیں، بہتر نظام تعلیم سے ہم اپنے مسائل کو کم کرسکتے ہیں،نظام تعلیم میں بہتری کے باعث قانون کی حکمرانی ہوگی،بچوں کو تعلیم کی فراہمی کیلئے قانون بنانے والوں کو کوشش کرنی چاہیے۔چیف جسٹس نے یہ بھی کہا قوانین کو کالعدم قرار دینے کیلئے طریقہ کار طے ہے ،آرڈیننس کی صدر سے منظوری ا±س وقت ہوتی ہے جب وہ وزیر اعظم بجھوائے ۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی ۔پی ایم ڈی سی کے وکیل نے کہا وہ بدھ کو آدھے گھنٹے تک اپنے دلائل مکمل کر لیں گے ۔