اختلاطِ موج و ساحل سے گھبراتا ہوں میں
ہم اگر امریکہ کے ساتھ تھے یا ہیں یا رہیں گے یا نہیں رہیں گے اس کی وجہ کوئی لالچ‘ کسی قسم کا خوف یا منفی جذبہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ پاکستان چونکہ اسلام کے نام پر بننے والی نظریاتی سلطنت ہے۔ اس لئے پاکستان کا اختلاف‘ دوستی ‘ دشمنی یا کوئی بھی ‘ کسی بھی قسم کا ردعمل‘ تعلق‘ رویہ یا سلوک ‘ اعلیٰ اخلاقی اقدار کے حوالے سے ہونا چاہئے یعنی ہمیں ہمیشہ عدل و انصاف کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے۔ نیکی‘ سچائی‘ ایمانداری اور انسانیت کی اقدار کے فروغ کیلئے کام کرنا چاہئے۔ الغرض ہمیں صرف اﷲ کے احکامات اور تعلیمات اسلام کی روشنی میں اپنی زندگی کو ترتیب دینے کیلئے شعوری کوشش کرنی چاہئے۔ پوری کائنات اﷲ تعالیٰ کی ہے۔ زمین‘ آسمان‘ ان کے درمیان جو کچھ ہے اس کے علاوہ بھی پوری کائنات میں جو کچھ بھی ہے وہ چاہے ہمارے علم میں ہے یا نہیں ہر شے کا مالک اﷲ تعالیٰ ہے۔ اس لئے ہمیں اپنی تمام تر حاجت روائی کیلئے بھی صرف اﷲ تعالیٰ کی طرف دیکھنا چاہئے۔ کسی امریکہ یا دوست دشمن کو خاطر میں نہیں لانا چاہئے۔ اگر ہم اﷲ کو مانتے ہیں تو پھر ہمیں اﷲ کی بات بھی ماننی چاہئے۔ یہی طرزِ عمل تو مردِ مومن کی پہچان ہے۔ تمام وسائل اور مسائل کا حل صرف ذات باری کے پاس ہے لیکن ہم دنیا داری کے شکنجے میں اس قدر جکڑے ہوئے ہیں کہ ہمیں اپنی ذات‘ اپنے تعلقات‘ اپنے وسائل اور اپنی طاقت کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اگر کسی کی صرف ظاہری وسائل پر نظر ہو تو وہ کثرت سے قبرستان جایا کرے۔ قبرستان میں ایسے ایسے لوگ ’’گڑے‘‘ ہوئے ہیں جن کو گمان تھا کہ ان کے بغیر دنیا ایک لمحے کے لئے بھی قائم نہیں رہ سکے گی لیکن آج وہ سب کے سب قبرستان میں نشان عبرت بنے ہوئے ہیں۔ زندہ انسانوں کو ’’ان عظیم‘‘ اور ’’طاقت ور‘‘ لوگوں کو دیکھنے کیلئے قبرستان ضرور جانا چاہئے تاکہ ان کو یقین آسکے کہ کل سب ہی کو قبرستان میں گھر بسانا ہے۔ اس لئے اپنے اخلاق و کردار کو احکاماتِ الٰہی اور ارشادات محبوب الٰہیؐ کے مطابق ترتیب دینا ہم سب کی اولین ترجیح بن سکے۔ کیا دنیا میں کوئی ہمیشہ بھی رہا ہے؟ یقیناً نہیں۔ پھر ہمیں کامل یقین نہیں آتا پھر ہم اپنی زندگیوں کو اسلام کے سچے اور سنہری اصولوں کے مطابق کیوں نہیں ڈھالتے۔ ہمارا تو یہ حال ہے کہ ’’گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے۔ رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے‘‘ جبکہ ہر روز ہمارے سامنے تماشا جاری ہے۔ بہت سے لوگ کھربوں روپے لوٹ لوٹ کر جمع کرتے ہیں اورپھر ان کو خرچ کئے بغیر ہی مر جاتے ہیں۔ اگر انسان دیدئہ عبرت کو ہمیشہ وا رکھے تو ہر سمت اور ہر موقع پر عبرت کا سامان موجود ہے۔
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدئہ دل وا کرے کوئی
اگر دنیا بھر کے معاشرہ میں یہ شعور بیدار ہو جائے کہ دنیا فانی ہے اور بالآخر اس نے ختم ہو جانا ہے۔ انسان چونکہ باعث تخلیق کائنات ہے اور اس نے بھی مٹی میں ملنے کے بعد پھر مٹی سے ہی زندہ ہونا ہے اور بمطابق حکم خداوندی زمین جمع کرنے والی ہے اور انسان کو بنانا اﷲ تعالیٰ کا انتہائی معمولی درجہ کا کام ہے۔ انسان نے اپنے اعمال کیلئے اﷲ تعالیٰ کے حضور پیش ہو کر خود کو اﷲ پاک کے احکامات کے تناظر میں سرخرو کرنا ہے۔ اگر سرخروئی مقدر نہ ہوئی تو سزا اور سرخروئی مقدر میں آ گئی تو جزا ملنی ہے۔ یہ جزا ہی اس زندگی کا اصل انعام ہے۔ اﷲ پاک اپنے رحم وکرم سے اگر ہر شخص کو بھی نواز دے تو اس کے خزانہ میں ذرہ بھر کمی نہیں آ سکتی۔ اﷲ پاک غفور و رحیم ہے لیکن انسان نے اپنے لئے ظلم کا راستہ چن لیا ہے۔ وہ اپنے وقتی فائدہ کے لئے اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی زندگیوں میں زہر گھولنے سے بھی باز نہیں آتا۔ وہ دھونس دھاندلی‘ ظلم اور طاقت کے ناجائز استعمال سے اپنے لئے جہنم خریدنے سے بھی نہیں ڈرتا۔ گو دنیا میں موجود تقریباً تمام مذاہب میں آخرت کا تصور کسی نہ کسی حوالے سے موجود ہے۔ لیکن ان مذاہب کے پیروکار عملاً اپنے اپنے مذاہب کی تعلیمات سے روگردان ہیں۔ اس وقت بھی اپنی مذہبی تعلیمات سے قریب صرف مسلمان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ دیگر مذاہب کے پیروکار اور ماننے والے اس بات پر ششدر رہ جاتے ہیں کہ اسلام میں آخر ایسی کیا کشش ہے کہ پوری انسانیت سمٹ کر اس کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہ دراصل اسلام کی حقانیت ہے۔ اسلام کی وہ امن پسندی‘ فطری و قدرتی انداز ہے جو انسان کو اور اس کے تخیل کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ انسان اپنے تمام مسائل کا حل اسلام میں تلاش کر رہا ہے اور انسان کے تمام مسائل کا حل واقعی ہے بھی اسلام میں‘ اسلام انسان کو سکون قلب‘ سچائی‘ انصاف‘ نیکی‘ ایمانداری‘ احسان ‘ ایثار اور اعلیٰ اخلاق کی ایسی معیاری تعلیمات فراہم کرتا ہے جو پوری دنیا کے انسانوں کے تمام ہمہ جہت مسائل کا حل ہیں۔ اسلام دین فطرت ہے۔ انسان نے بہرحال اپنی فطرت کی طرف لوٹنا ہے۔ اس لئے انسان تیزی سے اسلام کی طرف مائل ہیں۔ اس تناظر میں اہل پاکستان کی کرداری‘ اخلاقی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ وہ پاکستان کو دین اسلام کی تعلیمات پر عمل کا نمونہ بنائیں۔ یہاں ہر کام دین فطرت کی تعلیمات کی روشنی میں سر انجام پائے۔ قرآن و سنت کی حکمرانی ہو۔ علماء کرام ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونے کی بجائے پوری دنیا کے سامنے اسلام کا اصل روپ پیش کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ ہو سکتا ہے کہ اگر صحیح تناظر میں تعلیمات اسلام ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے پیش کی جائیں تو وہ اسلام قبول کر لے اور دنیا میں فساد‘ نفرت و انتقام و جنگ کا عنوان بن جانے والا شخص امن‘ محبت‘ نیکی ‘ اچھائی اور عدل کا نمونہ بن جائے۔