دہشت گردوںکے حامی…؟
پاکستان کو ہرطرف سے گھیرا جا رہا ہے عالمی دنیا میںیہ باور کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کا سپورٹر ہے ۔امریکی حکام نے شور مچا رکھا ہے اور اس کا عملی اقدام ٹرمپ نے شروع کیا ہوا ہے اور پاکستان پر پابندیاں در پابندیاں عائد کی جارہی ہیں ۔امریکہ جس ملک پر چاہتا ہے حملہ کر دیتا ہے اس کیلئے ماضی میں کی پالیسیاں دیکھی جائیں تو موجودہ حالات بھی کچھ اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔عراق کو تباہ و برباد کیا گیاجس کیلئے یہ شور مچایا گیا کہ عراق کے پاس بڑے تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں امریکہ نے یو این کی پروا کئے بغیر ہی حملہ کر دیا ۔ امریکہ کے چمچے ممالک بھی اس کے ساتھ ہوگئے دنیا بھر میں مظاہرے ہوئے ہیں مگر امریکہ نے کسی کی پروا نہیں کی عراق کو زمین بوس کر دیا گیا ابھی تک عراق میں امن قائم نہیںہو سکا ہے۔ لیبیا کے ساتھ یہی کچھ کیا گیا ۔باقی عرب ممالک میںبھی تباہی ناچ رہی ہے ۔
امریکہ اصل میں پاکستان کے درپے ہو چکا ہے یہ بات سمجھنے کی ہے اس کو ہلکا لینا بے قوفی ہوگی ۔ امریکہ پاکستان کے خلاف اچانک نہیں ہوا ہے بلکہ وہ کافی عرصہ سے پاکستان کے پیچھے پڑا ہوا تھا جس کی سب سے بڑی وجہ ایک تو مسلمان ملک ہے اور دوسرا اس کا قصور یہ ہے کہ وہ چین اور روس کے ساتھ یارانے بڑھا رہا ہے۔ یہ ایسی چیزیں ہیںجس پر امریکہ کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتا ہے ۔ امریکہ کو یہ ڈر ہے کہ کہیںپاکستان کی شکل میں اس کے خلاف کوئی عالمی اتحاد نہ بن جائے ۔ اگر دیکھا جائے تو اس وقت فلسطین کے ایشو پر آگے آگے پاکستان تھا جس کا امریکہ کو شدید غصہ ہے ۔ اقوام متحدہ میںامریکی نمائندہ خاتون نے پاکستان کے کردار پر شدید احتجاج کیا اور اقوام متحدہ کو بھی برا بھلا کہا تھا اور اعلان کیا تھاکہ وہ اقوام متحدہ کے اعلان کی پروا کئے بغیر اسرائیل کے دارالحکومت کے موقف پر قائم ہے ۔ اصل میں یہ ہٹ دھرمی ہے جس کو پوری دنیا میں کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ بھی اس وقت اسی ہٹ دھرمی پر اڑے ہوئے ہیںاور کم از کم مسلمانوں کو بری طرح نشانہ بنا رہے ہیں ۔
ایک طرف خطرات منڈلا رہے ہیںدوسری جانب ہمارے سیاستدان اور پاک فوج بھی اسکے نقصانات کو بھانپ چکے ہیں ۔ اس لئے انہیںبھی کوئی امید سامنے نظر نہیںآ رہی ہے ۔ کروڑوںاربوںڈالر کھانے والے اب پریشان بھی ہیں کہ اسکا حساب کیسے دیا جائے ۔ پاکستان میں جہادیوںکی نرسریاں بھی امریکہ کے کہنے پر بنائی گئیں تھی اور ایک بڑی طاقت روس کو نشان عبرت بنایا گیا تھا ۔ اب یہی جہادی نرسریاں تن آور درخت بن چکی ہیں جن کو کاٹنے کیلئے امریکہ سمیت کئی ممالک کا بڑا زور لگ رہا ہے ۔ پاکستان نے ان جہادیوںکو ختم کرنے کیلئے اپنے قبائلی علاقے تباہ کر ڈالے ۔چند سال پہلے تک پاک فضائیہ کی جانب سے روزانہ حملوںکی اطلاعات آتی تھی اور روزانہ کی بنیاد پر درجنوں طالبان اور دہشت گردمارے جانے کی بریکنگ نیوز چلاکرتی تھیں ۔ ان حملوں میں بھی ایسا لگتا تھا کہ اب وہاں کچھ نہیں بچا ہے اور باقاعدہ ان حملوں سے متعلق مقامی کے ساتھ ساتھ عالمی میڈیا کو بھی آگاہ کیا گیا تھا ۔ ان حملوںپر اربوں روپے خرچ ہوئے اور اسکے جواب میں ہمارے بھی ہیرے جیسے فوجی جوان اور شہری بے گناہ مارے گئے لیکن امریکہ مطمئن نہیںہوا ۔ اچانک اس کو مرنے والے تمام دہشت گرد پھرسے زندہ نظر آنے لگ گئے ہیں اس لئے اس کا بہانہ بنا لیا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے ۔ اس بہانہ کا توڑکرنا بہت ضرور ی ہے ورنہ پاکستان بھی عراق کی طرح تیار ہو جائے کہ جس پر الزام تھا کہ عراق کے پاس تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔
پاکستانی قوم قرضوںمیں جکڑی ہوئی ہے اور اس کے حکمران اور فوج کو ملکر اس کا توڑ تلاش کرنا ہوگا تلاش یہ نہ ہو کہ لوگوں کو مزیدقرضوں کی دلدل میںدھکیل جائے ۔ سیاستدانوںکی حالت آپ لوگوں کے سامنے ہے وہ امریکی دھمکیوںکے بعد متحد ہونے کی بجائے اپنے اپنے ایجنڈے پر لگے ہوئے ہیں ایک روتا پھر رہے کہ مجھے کیوں نکالا ۔ دوسرا تیسری شادی کے چکر میں ہے۔تیسرا اقتدار میں آنے کیلئے ڈانس کر رہا ہے۔ مذہبی جماعتیں جو مذہبی سے زیادہ اب سیاسی جماعتیں بن چکی ہیں وہ بھی کرسی کے چکرمیں ہے اور وہ اس چکر میں ہیںکہ کس کی کرسی مضبوط کی جائے اور کس کی کرسی کے نیچے سے کھنیچ لیا جائے آسان الفاظ میں وہ اکیلئے تو کچھ نہیںکر سکتے ہیں البتہ اپنے کندھے پیش کرنے کیلئے ہر جگہ حاضر ہو جاتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ پہلے پنجابی کی مثال ہے کہ اپنی منجھی کے نیچے ڈانگ پھیر لیں ۔ اچھی طرح دیکھ لیں امریکہ کن کے خلاف کارروائی چاہتا ہے ۔ امریکہ ان کے خلاف کارروائی کیوںنہیں کرتا جو افغانستان کے ستر فیصد سے زائد علاقے پر قابض ہے ۔ امریکہ سے اس بات کا جواب کیوں نہیں لیا جاتا جسکا الزام حامد کرزئی نے لگایا تھا کہ امریکہ بڑی مقدار میں افغانستان میں اسلحہ جمع کر رہا ہے اور داعش کی پرورش کر رہا ہے۔ پاکستان میں جہادی گروپس اب بھی موجود ہیں اور ان کو خاص مقاصد کیلئے استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ ان کی دال روٹی بھی اس جہاد سے ہی جڑی ہوئی ہے اور ان کی دال روٹی کابندوبست کرنے والے بھی اپنی دال روٹی اسی بناء پر اکٹھی کرتے ہیں ۔ مسائل سے بچنے کیلئے امریکی جھوٹ کا توڑ ڈھونڈنا چاہئے مگر ڈھونڈے گا کون ایسے سیاستدان جو ملکی مفاد پر اپنے مفادات کو مقدم رکھتے ہیں ۔ اب بھی اگر غیر جانبدارانہ طورپر سروے کروا لیا جائے تو چند ایک ہی سیاستدان شاید ہوں جن کے پاس دوہری شہریت نہ ہو۔ یہی حال ہماری اسٹیبلشمنٹ کا ہے ان کا سروے کرا لیا جائے تو یہ ان کے بھی کئی افسران دوہری شہریت کے مالک ہونگے ۔ اب جہاں حب الوطنی کا یہ حال ہوتو عوام بھی سوال کریں گے کہ کون دہشت گردوںکا سپورٹرہے۔