لاہور + اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی + ایجنسیاں) وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی طرف سے چیف آف آرمی سٹاف اور آئی ایس آئی چیف کے خلاف بیان ریاستی اداروں کے درمیان ٹکراﺅ پیدا کرنے کی دانستہ کوشش ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید اس طرح وہ ”شہید“ ہو جائیں گے لیکن انہیں پتہ نہیں کہ یہ ”حرام موت“ مر جائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار آئینی ماہرین لاہور ہائیکورٹ بار کے سابق صدر احمد اویس اور مسلم لیگ (ن) لائرز فورم کے مرکزی رہنما خواجہ محمود نے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے چینی اخبار کو دئیے گئے انٹرویو میں آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کی طرف سے میمو کیس میں عدالت کے روبرو داخل کروائے گئے جواب پر بیان دینے پر کیا۔ احمد اویس نے کہاکہ حکمران فوج کے خلاف اس طرح کے بیانات جاری کر کے زیادہ ہی معصوم بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خواجہ محمود احمد نے کہا کہ وزیراعظم کا ایک غیر ملکی اخبار کو انٹرویو اس بات کا اظہار ہے کہ حکمران جماعت اب اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کےلئے اداروں کے تقدس کو بھی پامال کرنے پر اتر آئے ہیں اور عوام کی نظروں میں مظلوم بننے کےلئے یہ میمو گیٹ کیس پر براہ راست فوج کے سامنے کھڑے ہونے پر بھی تیار ہو گئے ہیں۔ اے پی اے کے مطابق سابق چیف جسٹس آف پاکستان سعید الزمان صدیقی نے کہا کہ اگر حکومت یہ چاہتی تھی کہ پاک فوج حکومت کے ذریعے جواب داخل کرائے تو یہ معاملہ وزارت دفاع کے حوالے کر دیتے۔ اٹارنی جنرل نے خود بھی کہا تھا کہ وہ پاک فوج کی نمائندگی نہیں کر رہے اور عسکری ادارے اپنے طور پر جواب داخل کرا سکتے ہیں اس لئے وزیراعظم کے چینی اخبار کو دئیے گئے انٹرویو کی کوئی اہمیت یا آئینی حیثیت نہیں۔ سابق وفاقی وزیر قانون خالد رانجھا نے کہا ہے کہ وزیراعظم کے بیان کے باوجود میمو کیس پر کارروائی چلتی رہے گی اور عدالتی فیصلے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ممتاز قانون دان فروغ نسیم نے کہا کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے ذاتی حیثیت سے جواب داخل کروا کر کوئی غیر آئینی کام نہیں کیا۔ آئی این پی سے بات چیت کرتے ہوئے سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن قاضی محمد انور نے کہا کہ میمو کیس میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی جانب سے جواب داخل کرانا غیر آئینی نہیں۔ صدر اور وزیراعظم میمو گیٹ سکینڈل کے حقائق قوم سے چھپانا چاہتے ہیں اور چونکہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے حکومتی م¶قف کے مطابق بیانات نہیں دئیے اس لئے اب وزیراعظم ان پر اس طرح کی الزام تراشی کر رہے ہیں جو کہ افسوسناک ہے۔ سپریم کورٹ بار کے سابق صدر اور ممتاز آئینی ماہر حامد خان نے بھی وزیراعظم کے چینی میڈیا کو دئیے گئے انٹرویو کے ذریعے فوجی قیادت پر الزام تراشی کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر وزیراعظم یہ سمجھتے ہیں کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے کوئی غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام اٹھایا تھا تو ان کے خلاف سروس ایکٹ کے تحت اسی وقت کارروائی کر کے انہیں فارغ کیوں نہیں کیا تھا؟ اور ان کی پنشن بھی کیوں نہیں ضبط کی گئی لیکن ایسا کرنے کی ان میں ہمت نہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اشرف گجر ایڈووکیٹ نے کہا کہ آئینی طور پر اگر سپریم کورٹ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو جواب داخل کرنے کا نوٹس دیتی ہے تو ان پر مجاز اتھارٹی سے اجازت لینے کی کوئی پابندی نہیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ اور ممتاز آئینی ماہر اے کے ڈوگر نے کہا کہ ایسے حالات میں جب کوئی ادارہ کسی کیس میں خود فریق بنایا جائے تو وہ مجاز اتھارٹی سے پوچھے بغیر اپنا جواب داخل کر سکتا ہے اور چونکہ میمو ایسی نوعیت کا معاملہ ہے یہ وزارت دفاع کے کنٹرول سے باہر ہے اور اس معاملے میں چونکہ حکومت کے اوپر سنگین الزامات لگ رہے ہیں اس لئے وہ اب چیف جسٹس کے ریمارکس کو بنیاد بنانے سمیت مختلف بہانوں سے عسکری قیادت پر الزام تراشی کر رہی ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024