وہ جو رموزِ خسروی سے جتنے بیگانہ تھے، اتنے ہی شکست آشنا نکلے وہ گیند سے کھیلتے تھے، انہوں نے سات لاکھ کا جلسہ کر ڈالا اور کتنے ہی سیاستدان سونگھ کر کھینچ لئے۔ اب ان کے پاس بزرگ بھی ہیں جوان بھی آدمی اور انسان بھی، مرد بھی خواتین بھی۔ اور یوں نئی پرانی نسل کا ایسا آمیزہ تیار ہوا کہ بزرجمہرانِ سیاست ڈر گئے یا شکست شکست کھیلنے لگے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے جس روز اپنے کرتے کے نامکمل ہونے پر اسے پیوند لگانے شروع کئے اس روز سے ہی وہ کٹورا لے کر چوراہے پر بیٹھ گئی تھی مگر اس میں حکمرانی کی بہترین صلاحیت کے فقدان کے ساتھ ناکامی و نااہلی کے سارے جوہر موجود تھے اور یوں سمیٹا کہ متوسط درجے کے پاس بھی زندہ رہنے کے اسباب نہ رہے اور غریبوں نے موت کو بہترین کھاجا سمجھ کر چشم زدن میں نگل لیا۔ آہیں، بددعائیں عرش سے ٹکرانے لگیں آوازیں بھی سنائی دینے لگیں لیکن پھر بھی وقت کو غنیمت جان کر مالِ غنیمت اوپر سے نیچے تک یوں لوٹی گئی کہ فقیر کی کتیا تک مر گئی۔ امریکہ سے مشرف کے بہانے دانے اکٹھے کئے اور اس کی جنگ کو اپنی خود مختاری اور آزادی روند کر اپنے صحن میں لا کر اپنوں کو مارا بھی مروایا بھی، سفید مکان سے ایک ایسی سندِ امتیاز حاصل کی جس پر ڈومور لکھا تھا۔ ایک طویل عرصہ اس محرومی کی ماری قوم کو ڈومور کے بدلے مسائل کے قلزم میں ڈبو دیا اور خود ڈومور کو روز افزوں کیش کرایا۔ قوم کا نہیں حکمرانوں کے خزانے معمور ہو گئے، پھر بھی امریکی کانگریس راضی نہ ہوئی اور ڈومور کی ہوا چلنے لگی کہ سرحدوں کے محافظوں نے کہہ دیا اب بس بھی کرو کہاں تک اس پائریٹ مقبوضہ امریکہ کی فرمائش پوری کرتے رہو گے یہ تو ایک دن وہ بھی مانگ لے گا جس پر تم کو بہت ناز ہے۔ شاید فیاضی کی نوبت یہاں تک بھی پہنچ جاتی کہ ایک ”کاغذ کا پرزہ“ صحیفہ آسمانی بن کر عدالت عظمیٰ آن اترا جس میں کوئی ایسا بڑا راز نہ تھا‘ بس اتنا عرض کیا گیا تھا کہ ہم تو وفادار ہیں جرنیل ہی دلدار نہیں۔ اتنے میں نیٹو نے شب خون مارا اور رات روشن ہو گئی۔ سپلائی بند کر دی گئی اور ڈومور والے ناامید ہوئے تو یہ نگوڑا میمو بیچ میں آن ٹپکا۔ کوئی اس بارے غلط فہمی میں نہ رہے کہ وہ جن کا حیفہ میں تبلیغی مرکز ہے، ان میں سے حقانی، اعجاز منصور اور محترمہ اپنے شوہر سمیت پاکستانی اسرائیلی نکلے جنہیں ہم مرزائی قادیانی کہتے ہیں اور وہ خود کو احمدی کا نام دیتے ہیں اور یوں یہ میمو کا سفر شروع ہو کر اب اپنے اختتام تک اور حکمران کھمبا نوچنے تک پہنچ گئے۔ قادیانیوں نے تو بھٹو کی روح سے بدلہ لیا کہ انہوں نے اس جماعت کو کافر قرار دیا تھا اسی لئے تو جب بھی پیپلز پارٹی کی حکومت آتی ہے یہ منصور اعجاز ایکٹو ہو جاتا ہے۔ آخر بھٹو شہید نے جن کو کافر قرار دیا ملک فوج قوم کی رسوائی کا پروانہ انہیں کیوں دیا گیا جو اس پاک سرزمین پر ایک اسرائیل قائم کر چکے ہیں اور مذہب کی آڑ میں ایسی زہرناک سیاست لڑاتے ہیں کہ آج بھائی بھائی سے دست و گریباں ہے۔ پیسہ تو یہاں سے چلا گیا مگر قدرت کے خزانے تو ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ کوئی رجلِ رشید آئے گا جو ان کو نکال کر اس ملک کو ہم دوشِ فردوس بنا دے گا۔ ہم کسی سیاسی جماعت کو پسند کرتے ہیں اور نہ چاہتے ہیں کہ اسے پروموٹ کریں ہمیں اپنے نوٹ واپس چاہئیں اور یہ کام یہاں کے عوام کر سکتے ہیں۔ ہمارے پیسے چاہے کالا پانی کی تہہ میں ہوں ہم انہیں واپس لا کر رہیں گے۔ یہاں اول تو کسی حکمران سیاستدان نے رزق حلال کمایا نہیں اور اگر کمایا ہے تو اس میں حرام ملا کر سارا کنواں پلید کر دیا ہے۔ اب یہ کنواں پاک تو کرنا ہو گا کہ اس میں کتا جو گر گیا ہے۔ اگر قوم پلاننگ سے کام لے گی اور ضرور لے گی تو یہ سوئس بنکوں کا پیسہ تو کجا اس ملک کی ایک دھیلی بھی جہاں کہیں ہو گی واپس لائی جائے گی۔ یہ آخری آخری دھمکیاں بجھتے چراغ کی لپک ہیں۔ چار برس تک میثاق چلا تعاون ہوا مگر یہ بھی گدھے کو کھلا چھوڑنے کے مترادف ثابت ہوا۔ مسلم لیگ نون چاہتی تو لیگوں کے اتحاد سے اس پٹڑی سے اتری ٹرین سے پٹڑی صاف کر سکتی تھی مگر اس نے اپنی خود نگری کے باعث ٹرین مس کر دی۔ اب قوم کے پاس جو سیاسی سٹاک ہے اس میں یہی تین پارٹیاں ہیں جن میں سے میاں محمد نواز شریف پھر بھی اس قابل ہیں کہ کچھ بہتر حالات پیدا کر سکتے کیونکہ آزمودہ جماعتوں میں سے یہی مسلم لیگ نون ہی اس قابل ہے جو کچھ کر دکھائے۔ پنجاب حکومت نے ایک مثال بھی پیش کی مگر اسے کچھ کرنے نہیں دیا جاتا۔ تحریک انصاف کے بارے کچھ کہنا اندھیرے میں تیر چلانے والی بات ہے کیونکہ یہ ملغوبہ ابھی اس قابل نہیں کہ اس سے کامیابی کی توقع کی جا سکے۔ تاہم سونامی تو ہے اور سونامی کہیں عوام ہی کا رخ نہ کر لے۔ ہمارے مسائل لاطائل ہیں۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا نعرہ کسی کے منشور میں شامل نہیں۔ مسئلہ کشمیر کو پاکستانی کشمیری مل کر پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ افغانستان کو ضائع کر دیا گیا۔ اب افغان طالبان بھی ہمیں امریکی سمجھنے لگے ہیں وگرنہ افغانستان، ایران اور پاکستان مل کر امریکہ سے خطہ خالی کرا سکتے تھے۔ اب ایک چین ہی ایسا دوست ہے جس کو ہماری فوج کسی قیمت پر بدظن نہیں ہونے دے رہی۔ عوام کے سامنے سارا منظر نامہ رکھ دیا گیا ہے اب یہی کہا جا سکتا ہے کہ
یہ مسجد ہے وہ بت خانہ چاہے یہ مانو چاہے وہ مانو
یہ مسجد ہے وہ بت خانہ چاہے یہ مانو چاہے وہ مانو