شاہد رشید
ان میں سے زیادہ تر افراد کراچی میں آکر بسے جبکہ باقی تین لاکھ سے زائد افراد اس وقت بھی وہاں کے کیمپوں میں انتہائی خستہ حالت میں محصور و مجبور تھے۔ بلاشبہ اس سلسے میں جنرل ضیاءالحق کے دور حکومت میں رابطہ عالم اسلامی مسلم ورلڈ لیگ کے ساتھ ایک معاہدہ طے پایا گیا اور ان کی آباد کاری کےلئے فنڈز کا قیام عمل میں آیا لیکن یہ معاملہ آگے نہ بڑھ سکا پھر محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دونوں ادوار میں بھی اس مسئلہ کے حل پر توجہ نہ دی گئی۔ صرف1973-74ءمیں وزیرا عظم ذوالفقار علی بھٹو کی ذاتی مساعی سے ایک لاکھ اسی ہزار محصورین ہی پاکستان لا کر آباد کئے جا سکتے تھے۔
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے دور میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم خالدہ ضیاءکے عہد میں دونوں حکومتوں کے مابین رابطہ ٹرسٹ کے تحت پہلے مرحلے میں تین ہزار خاندانوں کی پاکستان منتقلی کے لئے معاہدہ ہوا اور پنجاب میں ٹرسٹ نے مکانات کی تعمیر شروع کی۔ رابطہ ٹرسٹ جنرل ضیاءالحق کے عہد میں رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبدا للہ عمر نے تشکیل دیا تھا اور پنجاب میں چالیس ہزار مکانات تعمیر کرنے کے لئے مفت زمین مختص کی گئی تھی۔ چنانچہ جنوری1993ءمیں وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدروائیں کی نگرانی میں 325محصورین کا پہلا قافلہ پنجاب میں لا کر آباد کیا گیا۔ اس کے بعد ٹرسٹ کا کام رک گیا۔دسمبر1997کو رابطہ ٹرسٹ کا مرکزی اجلاس اسلام آباد میں ہوا جس میں فنڈ کے حصول کی خاطر مہم چلانے کا فیصلہ ہوا۔ مگر سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں رابطہ ٹرسٹ منجمد کر دیا گیا۔ اس کے بعد اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی اور اب بنگلہ دیش کے قریباً ستر کیمپوں میں محبان پاکستان محصور ہو کر جانوروں کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے۔
بنگلہ دیش میں محصور محبان پاکستان کو وطن لانے کے لئے اگرچہ قومی جرائد اور اہل علم و ادب نے بھی آواز بلند کی اور کرتے رہتے ہیں مگر اس حوالے سے جو کارنامہ ملک و ملکت کی محبت سے سرشار میدان صحافت کے شہسوار نوائے وقت گروپ آف نیوز پیپرز کے چیف ایڈیٹر محترم مجید نظامی نے انجام دیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی، سماجی اور صحافتی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے بنگلہ دیش میں محصور محبان پاکستان کی مشکلات و مسائل کے حل اور انہیں پاکستان کے لانے کی ہم کا نہ صرف بیڑہ اٹھا رکھا ہے اور اس مقصد کےلئے انہوں نے نوائے وقت گروپ کے تمام جرائد کو مختص کر رکھا ہے۔ اس میں ان کی خبروں کا سلسلہ ہمیشہ سے جاری رکھا جبکہ ا نہوں نے نوائے وقت کے زیر اہتمام اپنی خصوصی نگرانی میں ”نوائے وقت فنڈبرائے محصو رین پاکستان در بنگلہ دیش“ کا اجراءکیا۔ اس فنڈ کا اجراءانہوں نے 15نومبر 2003ءکو کیا اور اس فنڈ میں عطیہ کی پہلی رقم اپنی جب سے ادا کی۔ پھر اس فنڈ کے اجراءکا اشتہار دیا گیا ۔ محترم مجید نظامی کی اس دردمندانہ تڑپ پر قوم نے بھی لبیک کہا اور اس میں قوم نے دو کروڑ 48لاکھ 36ہزار سے زائد رقوم کے عطیات دیئے۔ پاکستان کی حکومت اور حکمرانوں سمیت کسی دوسرے شخص کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ بنگلہ دیش کے کیمپوں میں زندگی کے بد ترین دن گزارنے پر مجبور کئے جانے والے پاکستانی بھائیوں کی مدد کے لئے اس قدر پیار و محبت اور ایثار کا مظاہرہ کرتا۔ جس کی مثال محترم مجید نظامی نے کردار و عمل سے قائم کر دی۔ حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ 27اپریل2004ءسے لے کر 29نومبر2005ءتک سات اقساط میں محصورین تک ستر لاکھ روپے پہنچائے گئے۔ پھر25نومبر 2004ءکو محصور خاندان کے فرد نسیم خان کی بیٹی کی شادی کےلئے ایک لاکھ روپے بھیجے گئے۔ 20مئی 2006ءسے 24اگست2011ءتک 23اقساط میں ویسٹرن یونین کی وساطت سے ایک کروڑ 65لاکھ 48ہزار 93روپے محصورین کو بھیجے گئے۔ اس طرح ”نوائے وقت فنڈ برائے محصورین پاکستان در بنگلہ دیش“ کی طرف سے کل دو کروڑ 36لاکھ 48ہزار 93روپے محصورین کو بھیجے جا چکے ہیں۔ یہ فنڈ باقاعدہ جاری ہے اس میں 5لاکھ 88ہزار 30روپے ابھی باقی ہیں۔ محصورین کے لئے کام کرنے والی کسی بھی بنگلہ دیشی تنظیم یا ادارہ کا کوئی عہدیدار یا نمائندہ وفد پاکستان آتا ہے تو وہ محترم مجید نظامی سے ضرور ملاقات کرتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ جناب مجید نظامی نے ملک اور بیرون ملک اس معاملے کو اپنے اخبارات میں اُٹھایا اور لوگوں میں اس کے حل کا شعور پیدا کرنے کی عملی جدوجہد کر رہے ہیں۔
مجید نظامی اپنی تقریروں اور اداریوں میں بار ہا اس موقف اکا اعادہ کرتے رہے ہیں کہ بنگلہ دیش میں محصورین جانوروں سے بد تر زندگی گزار رہے ہیں وہ ہم سے زیادہ پاکستانی ہیں انہیں جلد پاکستان لایا جائے۔ محبان پاکستان کے دکھوں کا مداوا کرنے کی سعی میں دن رات سوچ و بچار میں غلطاں رہنے ہی کی بنا پر جناب مجید نظامی سے عالمی مجلس محصورین پاکستان (جدہ، سعودی عرب شاخ)کے چیئرمین کی طرف سے رابطے قائم کئے گئے اوراس سلسلے میں ا سے مشاورت اور محصورین کی پاکستان میں منتقلی کی کوششوں کو آگے بڑھانے کےلئے خط بھیجا گیا جناب مجید نظامی 5مئی 1998ءکو اس خط کے جواب میں چیئرمین عالمی مجلس محصورین پاکستان(جدہ شاخ) کو لکھتے ہیں۔ ”بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کی پاکستان میں آباد کاری کے لئے آپ کی جانب سے تیار کی گئی سفارشات موصول ہوئیں جو یقینا محصورین کی پاکستان میں آباد کاری میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہیں۔ بحیثیت ممبر رابطہ ٹرسٹ میری یہ کوشش ہو گئی کہ چیئرمین رابطہ ٹرسٹ اور دیگر ممبران اپنے فیصلوں میں آپ کے مشوروں کو شامل کریں۔
الحمدللہ! آج پاکستان میں حکومت اور وزیراعظم محصورین کو پاکستان لا کر آباد کرنے میں کسی دو رائے کا شکار نہیں نہ کسی سیاسی دباﺅ کا شکار ہیں۔ بحیثیت ایک پاکستانی، ممبر رابطہ ٹرسٹ اور ایڈیٹر انچیف ”نوائے وقت“ ،”دی نیشن “میں سمجھتا ہوں کہ بنگلہ دیش میں محصورین پاکستانیوں نے اپنی پاکستان سے محبت کا اتنا واضح ثبوت دیا ہے کہ پاکستان میں ان کی فوری آباد کاری کی جدوجہد ہر پاکستانی اپنی تمام تر آج تک جاری قربانیوں کے بعد بھی اوراپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے باوجود پاکستانی تشخص کے منتظر ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر افراد کراچی میں آکر بسے جبکہ باقی تین لاکھ سے زائد افراد اس وقت بھی وہاں کے کیمپوں میں انتہائی خستہ حالت میں محصور و مجبور تھے۔ بلاشبہ اس سلسے میں جنرل ضیاءالحق کے دور حکومت میں رابطہ عالم اسلامی مسلم ورلڈ لیگ کے ساتھ ایک معاہدہ طے پایا گیا اور ان کی آباد کاری کےلئے فنڈز کا قیام عمل میں آیا لیکن یہ معاملہ آگے نہ بڑھ سکا پھر محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دونوں ادوار میں بھی اس مسئلہ کے حل پر توجہ نہ دی گئی۔ صرف1973-74ءمیں وزیرا عظم ذوالفقار علی بھٹو کی ذاتی مساعی سے ایک لاکھ اسی ہزار محصورین ہی پاکستان لا کر آباد کئے جا سکتے تھے۔
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے دور میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم خالدہ ضیاءکے عہد میں دونوں حکومتوں کے مابین رابطہ ٹرسٹ کے تحت پہلے مرحلے میں تین ہزار خاندانوں کی پاکستان منتقلی کے لئے معاہدہ ہوا اور پنجاب میں ٹرسٹ نے مکانات کی تعمیر شروع کی۔ رابطہ ٹرسٹ جنرل ضیاءالحق کے عہد میں رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبدا للہ عمر نے تشکیل دیا تھا اور پنجاب میں چالیس ہزار مکانات تعمیر کرنے کے لئے مفت زمین مختص کی گئی تھی۔ چنانچہ جنوری1993ءمیں وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدروائیں کی نگرانی میں 325محصورین کا پہلا قافلہ پنجاب میں لا کر آباد کیا گیا۔ اس کے بعد ٹرسٹ کا کام رک گیا۔دسمبر1997کو رابطہ ٹرسٹ کا مرکزی اجلاس اسلام آباد میں ہوا جس میں فنڈ کے حصول کی خاطر مہم چلانے کا فیصلہ ہوا۔ مگر سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں رابطہ ٹرسٹ منجمد کر دیا گیا۔ اس کے بعد اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی اور اب بنگلہ دیش کے قریباً ستر کیمپوں میں محبان پاکستان محصور ہو کر جانوروں کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے۔
بنگلہ دیش میں محصور محبان پاکستان کو وطن لانے کے لئے اگرچہ قومی جرائد اور اہل علم و ادب نے بھی آواز بلند کی اور کرتے رہتے ہیں مگر اس حوالے سے جو کارنامہ ملک و ملکت کی محبت سے سرشار میدان صحافت کے شہسوار نوائے وقت گروپ آف نیوز پیپرز کے چیف ایڈیٹر محترم مجید نظامی نے انجام دیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی، سماجی اور صحافتی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے بنگلہ دیش میں محصور محبان پاکستان کی مشکلات و مسائل کے حل اور انہیں پاکستان کے لانے کی ہم کا نہ صرف بیڑہ اٹھا رکھا ہے اور اس مقصد کےلئے انہوں نے نوائے وقت گروپ کے تمام جرائد کو مختص کر رکھا ہے۔ اس میں ان کی خبروں کا سلسلہ ہمیشہ سے جاری رکھا جبکہ ا نہوں نے نوائے وقت کے زیر اہتمام اپنی خصوصی نگرانی میں ”نوائے وقت فنڈبرائے محصو رین پاکستان در بنگلہ دیش“ کا اجراءکیا۔ اس فنڈ کا اجراءانہوں نے 15نومبر 2003ءکو کیا اور اس فنڈ میں عطیہ کی پہلی رقم اپنی جب سے ادا کی۔ پھر اس فنڈ کے اجراءکا اشتہار دیا گیا ۔ محترم مجید نظامی کی اس دردمندانہ تڑپ پر قوم نے بھی لبیک کہا اور اس میں قوم نے دو کروڑ 48لاکھ 36ہزار سے زائد رقوم کے عطیات دیئے۔ پاکستان کی حکومت اور حکمرانوں سمیت کسی دوسرے شخص کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ بنگلہ دیش کے کیمپوں میں زندگی کے بد ترین دن گزارنے پر مجبور کئے جانے والے پاکستانی بھائیوں کی مدد کے لئے اس قدر پیار و محبت اور ایثار کا مظاہرہ کرتا۔ جس کی مثال محترم مجید نظامی نے کردار و عمل سے قائم کر دی۔ حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ 27اپریل2004ءسے لے کر 29نومبر2005ءتک سات اقساط میں محصورین تک ستر لاکھ روپے پہنچائے گئے۔ پھر25نومبر 2004ءکو محصور خاندان کے فرد نسیم خان کی بیٹی کی شادی کےلئے ایک لاکھ روپے بھیجے گئے۔ 20مئی 2006ءسے 24اگست2011ءتک 23اقساط میں ویسٹرن یونین کی وساطت سے ایک کروڑ 65لاکھ 48ہزار 93روپے محصورین کو بھیجے گئے۔ اس طرح ”نوائے وقت فنڈ برائے محصورین پاکستان در بنگلہ دیش“ کی طرف سے کل دو کروڑ 36لاکھ 48ہزار 93روپے محصورین کو بھیجے جا چکے ہیں۔ یہ فنڈ باقاعدہ جاری ہے اس میں 5لاکھ 88ہزار 30روپے ابھی باقی ہیں۔ محصورین کے لئے کام کرنے والی کسی بھی بنگلہ دیشی تنظیم یا ادارہ کا کوئی عہدیدار یا نمائندہ وفد پاکستان آتا ہے تو وہ محترم مجید نظامی سے ضرور ملاقات کرتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ جناب مجید نظامی نے ملک اور بیرون ملک اس معاملے کو اپنے اخبارات میں اُٹھایا اور لوگوں میں اس کے حل کا شعور پیدا کرنے کی عملی جدوجہد کر رہے ہیں۔
مجید نظامی اپنی تقریروں اور اداریوں میں بار ہا اس موقف اکا اعادہ کرتے رہے ہیں کہ بنگلہ دیش میں محصورین جانوروں سے بد تر زندگی گزار رہے ہیں وہ ہم سے زیادہ پاکستانی ہیں انہیں جلد پاکستان لایا جائے۔ محبان پاکستان کے دکھوں کا مداوا کرنے کی سعی میں دن رات سوچ و بچار میں غلطاں رہنے ہی کی بنا پر جناب مجید نظامی سے عالمی مجلس محصورین پاکستان (جدہ، سعودی عرب شاخ)کے چیئرمین کی طرف سے رابطے قائم کئے گئے اوراس سلسلے میں ا سے مشاورت اور محصورین کی پاکستان میں منتقلی کی کوششوں کو آگے بڑھانے کےلئے خط بھیجا گیا جناب مجید نظامی 5مئی 1998ءکو اس خط کے جواب میں چیئرمین عالمی مجلس محصورین پاکستان(جدہ شاخ) کو لکھتے ہیں۔ ”بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کی پاکستان میں آباد کاری کے لئے آپ کی جانب سے تیار کی گئی سفارشات موصول ہوئیں جو یقینا محصورین کی پاکستان میں آباد کاری میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہیں۔ بحیثیت ممبر رابطہ ٹرسٹ میری یہ کوشش ہو گئی کہ چیئرمین رابطہ ٹرسٹ اور دیگر ممبران اپنے فیصلوں میں آپ کے مشوروں کو شامل کریں۔
الحمدللہ! آج پاکستان میں حکومت اور وزیراعظم محصورین کو پاکستان لا کر آباد کرنے میں کسی دو رائے کا شکار نہیں نہ کسی سیاسی دباﺅ کا شکار ہیں۔ بحیثیت ایک پاکستانی، ممبر رابطہ ٹرسٹ اور ایڈیٹر انچیف ”نوائے وقت“ ،”دی نیشن “میں سمجھتا ہوں کہ بنگلہ دیش میں محصورین پاکستانیوں نے اپنی پاکستان سے محبت کا اتنا واضح ثبوت دیا ہے کہ پاکستان میں ان کی فوری آباد کاری کی جدوجہد ہر پاکستانی اپنی تمام تر آج تک جاری قربانیوں کے بعد بھی اوراپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے باوجود پاکستانی تشخص کے منتظر ہیں۔