ہم اس پُرفتن دور میں داخل ہوچکے ہیں کہ جہاں علمی بددیانتی ہرگز اخلاقی جرم نہیں رہی۔ قلم کی حرمت کی داستانیں قصہ پارینہ بن چکیں۔ جن کی دانش انہیں کاتب بنانے پر قادر نہ تھی، آج مصلح، دانشور، محقق و ادیب بن بیٹھے ہیں۔ کچھ تو شوقِ خودنمائی میں تاریخ کی اصلاح پر اتر آئے ہیں۔ کوئی راجہ داہر کو ہیرو اور محمد بن قاسم کو حملہ آور قرار دیتا ہے تو کسی کو محمود غزنوی کا سومنات پر حملہ لوٹ مار دکھائی دیتا ہے۔ کوئی جمال الدین افغانی کو سازشی قرار دیتا ہے تو کسی کو اقبال مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کا غیرضروری مدح خواں نظر آتا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی مسلمان حملہ آوروں کے علاوہ کسی حملہ آور پر تنقید کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور انہیں ہمیشہ تاریخِ اسلام میں ہی نقائص نظر آتے ہیں۔ اس پُرفتن زمانے میں نظریاتی ادباءو محققین کا کام دوگنا اور انکی ذمہ داریاں چوگنا ہوگئی ہیں۔ جہاں انہیں ایک طرف نظریہ کا دفاع کرنا ہے تو دوسری طرف قائدینِ قوم اور سالارانِ امت کے بارے میں پھیلائے جانیوالے شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا ہے۔ ان عظیم ہستیوں کی سیرت، گفتار، کردار اور جواہر کو قوم کے سامنے پیش کرنا ہے تاکہ نوجوانانِ قوم مایوسی اور ناامیدی کے اندھیروں میں کامیابی کا راستہ تلاش کرسکیں۔ حضرت قائداعظمؒ اور حضرت اقبالؒ وہ مینارہ نور ہیں کہ جن کی بصیرت افروز روشنی قوم کی حیات آفرینی کو کافی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ فلسفہ اقبال ہی بنیاد پاکستان ہے تو بےجا نہ ہوگا۔ مسلم امہ کو برصغیر میں سرحد، بلوچستان، پنجاب اور کشمیر پر مشتمل مسلم انڈیا کا تصور دینے والے، مسلمانانِ ہند کو احساسِ کمتری سے نکال کر شوکتِ اسلام کا راستہ دکھانے والے، دارالسلام پٹھان کوٹ کی صورت میں برصغیر کا پہلا مسلم تھنک ٹینک تجویز کرنیوالے محمد علی جناحؒ کو مسلم ریاست کی جدوجہد پر آمادہ کرنیوالے حضرت اقبالؒ بلاشبہ حکیم الامت و مفسرِ قرآن اور دردمندِ ملت تھے۔ انکی شخصیت اور شاعری پر لاتعداد مقالے، کتب، تخلیقات و تشریحات لکھی جاچکیں مگر احاطہ تاحال ممکن نہیں۔ جس کا ہر مصرعہ قرآن کے قالب میں ڈھلا ہوا اور عشقِ نبوی میں گندھا ہوا ہو، اسکا احاطہ ممکن ہی کیونکر ہے....؟
تحریک نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے جنرل سیکرٹری شاہد رشید نظریہ پاکستان کی محبت میں جڑا ایسا نوجوان دانشور اور محقق ہے کہ جس کا عرق ریز کام متعدد تالیف و تصانیف کے ذریعے پذیرائی پاچکا ہے۔ عزیزم شاہد رشید نے محنت، جانفشانی اور عرق ریزی سے فرامین اقبالؒ کو تلاش اور انہیں ترتیب دیکر ”فرموداتِ علامہ محمد اقبالؒ“ کے نام سے شائع کرکے محبانِ اقبال کے دلوں میں اپنی قدرومنزلت کئی گنا بڑھا لی ہے۔ فکر کے جو در علامہ کی شاعری وا کرتی ہے، انکی نثر اس فکر کو وجدان تک پہنچاتی ہے۔ اس عظیم المرتبت رہبر کا ویژن ملاحظہ ہو کہ جو 90 سال قبل کہا گیا وہ آج بھی مسلم ہے:
”اسلام کیلئے اس ملک میں نازک زمانہ آرہا ہے۔ جن لوگوں کو کچھ احساس ہے انکا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کیلئے ہرممکن کوشش کریں۔ علماءمیں مداہت آگئی ہے، یہ گروہ حق کہنے سے ڈرتا ہے، صوفیاءاسلام سے بے پرواہ اور حکام کے تصرف میں ہیں۔ اخبار نویس اور آج کل کے تعلیم یافتہ لیڈر خودغرض ہیں اور ذاتی منفعت کے سوا زندگی کا کوئی مقصد نہیں۔ عوام میں جذبہ موجود ہے مگر انکا کوئی بے غرض نہیں“ (مکتوب بنام چودھری نیاز علی خان 1937ئ)
اسلام کے بطلِ جلیل کے قلم سے فکر آفریں نکتہ ملاحظہ ہو:
”بعض پرانی مہذب قوموں کی بربادی عارضی لذات کی جستجو اور ان اشیاءسے بے پرواہ رہنے کی وجہ سے ہوئی جن سے انسانی زندگی کو حقیقی مسرت اور جلاءحاصل ہوتی ہے۔ زمانہ حال کی تہذیب بھی اسی صورت میں قائم رہ سکتی ہے اگر لذیذ اور مفید میں امتیاز کیا جائے“ (از: کتاب ”الاعلم الاقتصاد“.... علامہ اقبالؒ)
تشنگانِ علم کیلئے یہ نایاب تحفہ لازم ہے کہ پنجاب کی تمام لائبریریوں کی زینت بنایا جائے تاکہ نازک غنچوں کی آبیاری میں ممدومعاون ثابت ہو۔
ستاروں کی روشنی میں عام انتخابات 2012ءمیں ہوتے نظر نہیں آرہے۔
تحریک نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے جنرل سیکرٹری شاہد رشید نظریہ پاکستان کی محبت میں جڑا ایسا نوجوان دانشور اور محقق ہے کہ جس کا عرق ریز کام متعدد تالیف و تصانیف کے ذریعے پذیرائی پاچکا ہے۔ عزیزم شاہد رشید نے محنت، جانفشانی اور عرق ریزی سے فرامین اقبالؒ کو تلاش اور انہیں ترتیب دیکر ”فرموداتِ علامہ محمد اقبالؒ“ کے نام سے شائع کرکے محبانِ اقبال کے دلوں میں اپنی قدرومنزلت کئی گنا بڑھا لی ہے۔ فکر کے جو در علامہ کی شاعری وا کرتی ہے، انکی نثر اس فکر کو وجدان تک پہنچاتی ہے۔ اس عظیم المرتبت رہبر کا ویژن ملاحظہ ہو کہ جو 90 سال قبل کہا گیا وہ آج بھی مسلم ہے:
”اسلام کیلئے اس ملک میں نازک زمانہ آرہا ہے۔ جن لوگوں کو کچھ احساس ہے انکا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کیلئے ہرممکن کوشش کریں۔ علماءمیں مداہت آگئی ہے، یہ گروہ حق کہنے سے ڈرتا ہے، صوفیاءاسلام سے بے پرواہ اور حکام کے تصرف میں ہیں۔ اخبار نویس اور آج کل کے تعلیم یافتہ لیڈر خودغرض ہیں اور ذاتی منفعت کے سوا زندگی کا کوئی مقصد نہیں۔ عوام میں جذبہ موجود ہے مگر انکا کوئی بے غرض نہیں“ (مکتوب بنام چودھری نیاز علی خان 1937ئ)
اسلام کے بطلِ جلیل کے قلم سے فکر آفریں نکتہ ملاحظہ ہو:
”بعض پرانی مہذب قوموں کی بربادی عارضی لذات کی جستجو اور ان اشیاءسے بے پرواہ رہنے کی وجہ سے ہوئی جن سے انسانی زندگی کو حقیقی مسرت اور جلاءحاصل ہوتی ہے۔ زمانہ حال کی تہذیب بھی اسی صورت میں قائم رہ سکتی ہے اگر لذیذ اور مفید میں امتیاز کیا جائے“ (از: کتاب ”الاعلم الاقتصاد“.... علامہ اقبالؒ)
تشنگانِ علم کیلئے یہ نایاب تحفہ لازم ہے کہ پنجاب کی تمام لائبریریوں کی زینت بنایا جائے تاکہ نازک غنچوں کی آبیاری میں ممدومعاون ثابت ہو۔
ستاروں کی روشنی میں عام انتخابات 2012ءمیں ہوتے نظر نہیں آرہے۔