نیل کے ساحل پر قاہرہ کے ڈاﺅن ٹاﺅن میں واقع ہے۔ یہیں آس پاس اہم سرکاری دفاتر، ریڈیو، ٹی وی، امریکن یو نیورسٹی (اولڈ کیمپس) ٹریول ایجنٹس اور فاسٹ فو ڈز کے ریستورانوں کے علاوہ، وہ مشہور قہوہ خانے بھی ہیں، جہاں کبھی ممتاز شاعر، ادیب، فلم اور تھیٹر کے اداکار، گلوکار اور ہدایت کار اپنی شامیں گزارتے تھے ۔ اسی چوک سے شارع ِ طلعت حرب پر اپنے وقت کا بہت مشہور ”قہوہ خانہ“ ”رچ“ (مصریو ں کے لئے ریش) وا قع ہے۔ ایک وقت تھا کہ یہا ں نامور شعراءادباءفنکار حضرات بیٹھتے تھے۔ پھر اس کے مالکان کے روئیے اور قدرے مہنگا ہونے کی بنا پر شعراءنے اپنا ٹھکانہ بدل ڈالا اور وہ اس شارع کے پہلو میں ایک خاموش سی گلی میں ”زہرہ بستان “ میں جا بیٹھے۔ ۰۶۹۱ ءاو ر ۰۷۹۱ ئ کی دہائیوں میں قہوہ خانوں میں بڑی رونقیں ہوا کرتی تھیں شروع میں زہرہ بستان ایک چھوٹا سا قہوہ خانہ تھا لیکن جلد ہی یہ ادیبوں شا عروں کا پسندیدہ ” گو شہ عا فیت “ بن گیا۔ لا ہو ر میں نگینہ بیکری، پا ک ٹی ہاﺅس، کافی ہاﺅس، چا ئنیز لنچ ہوم کی طرح یہاں بھی ادب و ثقافت کی مشہور شخصیا ت باقاعدگی سے آیا کرتی تھیں۔ وہ میڈیا کا دور نہیں تھا۔ لوگ آپس میں رابطے کے لئے قہوہ خانوں کا ہی رخ کرتے تھے۔ وہ کتا ب اور رسا ئل جرا ئد کا دور تھا۔ وہ ادب و ثقافت کا سنہری عہد تھا۔ میڈیا کی ترقی سے قبل ہر جگہ 1960ءسے 1980ءتک جدید شعر و ادب و ثقا فت اپنے عروج پر نظر آ تی ہے۔ قا ہرہ میں بھی بالکل یہی صورت حال تھی۔ کچھ اسی قسم کی باتیں یہاں کے ٹی ہاﺅس میں یہاں کے ممتاز مترجم اور ناول نگار السیّد امام بھی کر رہے تھے۔ اس روز میں اور میرا مصری دوست ہانی، زہرہ دبستان بیٹھے تھے، قریب ہی دو اور شخص چائے پی رہے تھے، ہانی مجھے ان سے متعارف کرانے لگا۔ پتہ چلا کہ وہ دونوں باپ بیٹے ہیں۔ السید امام کا بیٹا طارق امام اپنے ایک نا ول ”خاموشی کا قتل“ پر ایوارڈ بھی حا صل کر چکا ہے۔ دونوں کو دیکھ کر ہمیں ہمارا ”ٹی ہاﺅس“ یاد آ گیا۔ اسرار زیدی ٹی ہا ﺅس کے آ خری حصے میں سیڑھیوں کے ساتھ صوفوں پر بیٹھا کر تے تھے۔ وہیں ان کے پاس کبھی کبھی دو باپ بیٹا (نام اس وقت یاد نہیں) تشریف لا تے تھے۔ اب تو ٹی ہا ﺅس مدت ہو ئی بند ہو چکا ہے۔ ہانی بتانے لگا، اِن دنوں زہرہ بستان پر زیادہ مشہور لکھاری کم ہی آتے ہیں۔ بڑے بڑے شعرا ءادبا اور فنکار بھی فائیو سٹار ہوٹلوں کی اہم تقاریب ہی میں دکھائی دیتے ہیں۔ طارق امام نے بتایا: اصل میں قاہرہ میں بھی ادبی قہوہ خا نوں میں پہلے جیسی رونقیں نہیں رہیں۔ لیکن وہ بھی دن تھے جب زہرہ بستان اور ارد گرد کے قہوہ خانوں میں انقلابی اور عوامی شاعر امل دنقل بھی آ کر بیٹھتا تھا۔ (امل دنقل کو آپ مصرکا حبیب جالب بھی کہہ سکتے ہیں)۔ جب اس کی پہلی نظم ”الا ہرام“ میں شائع ہوئی تو دھوم مچ گئی تھی۔ وہ غربت جہالت اور جبر کے خلاف نظمیں لکھنے لگا۔ ایک روز ایک خاتون صحافی اپنے اخبار کے لئے اس کا انٹرویو کرنے آئی۔ یہ ملاقات دوستی میں بدل گئی اور بعدازاں وہی صحافی عبلہ الروینی اس کی بیوی بن گئی۔ مصر اسرائیل جنگ کے دوران میںامل دنقل نے انقلابی شاعری کی، وہ اسرائیل سے صلح کے خلاف تھا جبکہ اس وقت کے صدر انوارالسادات نے اسرائیل سے امن معاہدہ کر لیا۔ اس حوالے سے امل دنقل کی ایک نظم ”لا تصالح“ یعنی صلح مت کرو، بہت مقبول ہو ئی تھی۔ اس نظم کی گو نج سار ے عرب میں سنی گئی، یہ نظم کیمپ ڈیوڈ کے خلا ف تھی۔ اس کی نظم کو کئی دستاویزی فلموں میں بھی استعمال کیا گیا، اسکا مرکزی خیال یہ تھا کہ:” صلح مت کرنا چاہے بدلے میں دنیا بھر کی دولت ملے
دشمن اگر تمہاری آنکھ پھوڑ کر، آنکھوں کی جگہ قیمتی ہیرے، جڑ دے توکیا تم دیکھ سکو گے؟ “آج بھی سیاسی ٹاک شوز میں جب اسرائیل مصر تعلقات کا ذکر آتا ہے تو امل دنقل کی نظم بھی یاد کی جاتی ہے۔ امل دنقل کے 8 دیوا ن شائع ہوئے۔ اس کی بیوی نے اس پر ایک کتاب جنوب کا آدمی لکھی۔21 مئی 1983ءمیں پھیپھڑو ں کے کینسر سے تین سال لڑنے کے بعد 43 سال کی عمر میں قاہرہ کا یہ مزاحمتی شاعر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔
دشمن اگر تمہاری آنکھ پھوڑ کر، آنکھوں کی جگہ قیمتی ہیرے، جڑ دے توکیا تم دیکھ سکو گے؟ “آج بھی سیاسی ٹاک شوز میں جب اسرائیل مصر تعلقات کا ذکر آتا ہے تو امل دنقل کی نظم بھی یاد کی جاتی ہے۔ امل دنقل کے 8 دیوا ن شائع ہوئے۔ اس کی بیوی نے اس پر ایک کتاب جنوب کا آدمی لکھی۔21 مئی 1983ءمیں پھیپھڑو ں کے کینسر سے تین سال لڑنے کے بعد 43 سال کی عمر میں قاہرہ کا یہ مزاحمتی شاعر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔