کسی ملک کی معاشی و تہذیبی ترقی کے لئے سائنس اور ٹیکنالوجی کی بہت اہمیت ہے۔ دنیا مےں مسلمانوں نے حکمرانی ہی صرف سائنس اور علوم و فنون مےں ترقی کی بنیاد پر کی لیکن پاکستان مےں معاشی ترقی کی رفتار صرف اس لئے کم رہ گئی کہ ہم نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے ادارے تو قائم کئے لیکن ان اداروں کی ریسرچ کے ثمرات عام پاکستانیوں تک نہیںپہنچے۔ جب سابقہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری مےں آئے تو انہوں نے زبردست انقلابی گفتگو کی اور اعلان کیا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے تمام اداروں کی مارکیٹنگ کا بندوبست کیا جائے گا اور عام آدمی تک اس کے ثمرات پہنچائے جائیں گے۔
موجودہ حکومت نے بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے لئے ابھی تک کوئی مربوط پروگرام ترتیب نہیں دیا ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ جب مختلف سائنسی اداروں کی نمائش ہوتی ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ وہ زبردست کارنامے انجام دینے کی پوزیشن مےں ہےں لیکن معلومات کی کمی کی وجہ سے عوام ان تک نہیں پہنچتے اور کم وسائل کی وجہ سے ان کی ریسرچ بھی ادھوری رہ جاتی ہے اور رہی سہی کسر وفاقی حکومت کی نااہلی پوری کر دیتی ہے جس کی وجہ سے تعلیمی اور سائنسی ریسرچ کے اداروں کو ریسرچ کرنے کے لئے درکار میٹریل کو غیر ممالک سے این او سی نہیں ملتا، جی ہاں! یہ ایک ملکی حقیقت ہے کہ تمام سائنسی ریسرچ کرنے والے تعلیمی ادارے صرف اس وجہ سے ناقص ریسرچ کرنے پر مجبور ہےں کہ پاکستان سلامتی کونسل کا ممبر بننے کے باوجود عالمی سطح پر ریسرچ کے لئے درکار سائنسی میٹریل کی پابندی ختم کرانے مےں ناکام نظر آتا ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ تمام سائنسی اور ٹیکنالوجی کے اداروں کی ریسرچ ایک مرکز پر اکٹھی کرے اور پھر جس ریسرچ کا عوام کو فائدہ ہے اسے اخبارات مےں مشتہر کرے۔ پی سی ایس آئی آر لیبارٹریز اس کی بہترین مثال ہے جس نے عام تاجروں کو بہترین سہولتیں مہیا کیں۔ ویسے اب تو انٹرنیٹ معلومات تک رسائی کا بہترین اور سستا ترین ذریعہ ہے اس کے ذریعے سے بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ریسرچ عام انسان تک پہنچنی چاہئے۔
موجودہ حکومت نے بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے لئے ابھی تک کوئی مربوط پروگرام ترتیب نہیں دیا ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ جب مختلف سائنسی اداروں کی نمائش ہوتی ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ وہ زبردست کارنامے انجام دینے کی پوزیشن مےں ہےں لیکن معلومات کی کمی کی وجہ سے عوام ان تک نہیں پہنچتے اور کم وسائل کی وجہ سے ان کی ریسرچ بھی ادھوری رہ جاتی ہے اور رہی سہی کسر وفاقی حکومت کی نااہلی پوری کر دیتی ہے جس کی وجہ سے تعلیمی اور سائنسی ریسرچ کے اداروں کو ریسرچ کرنے کے لئے درکار میٹریل کو غیر ممالک سے این او سی نہیں ملتا، جی ہاں! یہ ایک ملکی حقیقت ہے کہ تمام سائنسی ریسرچ کرنے والے تعلیمی ادارے صرف اس وجہ سے ناقص ریسرچ کرنے پر مجبور ہےں کہ پاکستان سلامتی کونسل کا ممبر بننے کے باوجود عالمی سطح پر ریسرچ کے لئے درکار سائنسی میٹریل کی پابندی ختم کرانے مےں ناکام نظر آتا ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ تمام سائنسی اور ٹیکنالوجی کے اداروں کی ریسرچ ایک مرکز پر اکٹھی کرے اور پھر جس ریسرچ کا عوام کو فائدہ ہے اسے اخبارات مےں مشتہر کرے۔ پی سی ایس آئی آر لیبارٹریز اس کی بہترین مثال ہے جس نے عام تاجروں کو بہترین سہولتیں مہیا کیں۔ ویسے اب تو انٹرنیٹ معلومات تک رسائی کا بہترین اور سستا ترین ذریعہ ہے اس کے ذریعے سے بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ریسرچ عام انسان تک پہنچنی چاہئے۔