راجہ افراسیاب خاں
پاکستان بیرونی دباﺅ کے تحت بھارت کو پسندیدہ ترین قوم کا خطاب دینے کی راہ پر گامزن ہے۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کے لوگ اس پر سخت پریشان ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں نے اگر کوئی اس طرح کا قدم اٹھایا تو پورا پاکستان اور آزاد کشمیر حکمرانوں کےخلاف اٹھ کھڑا ہوگا۔ بھارت وہ ملک ہے جس نے روز اول سے ہی کشمیریوں اور پاکستانیوں کا قتل عام جاری رکھا ہوا ہے۔ ریاست جموں و کشمیر اقوام متحدہ کی 1948ءاور 1949ءکی بااتفاق رائے منظور شدہ قراردادوں کے مطابق ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ اس جھگڑے کا فیصلہ ابھی ہونا باقی پڑا ہے۔ بھارت نے یکطرفہ طور پر بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کشمیر کو ہڑپ کر لیا ہوا ہے۔
بھارت نے اپنے آئین کو بھی کشمیر میں لاگو کر رکھا ہے۔ اب تو بھارت نے کھل کر مسئلہ کشمیر کی موجودگی سے ہی انکار کر دیا ہے۔ پاکستان نے کبھی بھی کشمیر پر بھارتی دعوے کو تسلیم نہیں کیا، مسئلہ کشمیر پر پاکستان ایک لازمی فریق مقدمہ ہے۔ ایک کروڑ سے زائد ریاست جموں و کشمیر کے مظلوم اور محکوم لوگوں نے کبھی بھی بھارتی موقف کو تسلیم نہیں کیا۔ پورا پاکستان اور پاکستانی قوم مسئلہ کشمیر پر کشمیریوں کےساتھ ہے۔
کشمیری اپنی آزادی کیلئے بھارت کےخلاف برسرپیکار ہیں۔ دنیا میں جگہ جگہ آئے دن کشمیری اپنی آزادی کیلئے بھارت کےخلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ بھارت نے ہمیں ہمارے حصے کے پانی سے محروم رکھا ہوا ہے۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ برسات کے موسموں میں جب ہمیں پانی کی ہرگز ضرورت نہیں ہوتی تو بھارت ہمیں سیلابی پانی میں ڈبو دینے کی کوششوں میں لگ جاتا ہے۔ پانی کی جب ہمارے ہاں اشد ضرورت ہوتی ہے تو بھارت ہمیں پانی کے ایک ایک قطرے سے محروم کر دیتا ہے۔
گرمیوں کے موسم میں جب پانی کے قحط کو دیکھنا مقصود ہو تو آپ لوگ تھر کے علاقوں کے علاوہ جھنگ، سرگودھا وغیرہ میں جائیں تو آپ کو ”کربلا“ کا سماں نظر آئےگا، ان گنت لوگوں کے مویشی پانی نہ ہونے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ ”ہرے بھرے کھیت“ دیکھتے ہی دیکھتے ویرانوں اور ریگستانوں کا نظارہ دیتے ہیں۔ میں اس قسم کے نظارے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔ ہمارے پیارے وطن میں یہ سب کچھ کیوں ہوتا ہے؟ یہ صرف اور صرف اس لئے ہوتا ہے کہ بھارت نے کشمیریوں کو غلام بنا رکھا ہے اور وہاں پانی کے تمام ”سرچشموں“ پر فوجی پہرے بٹھا رکھے ہیں، ابھی تو اور بھرپور قیامت ہمارے انتظار میں بیٹھی ہے۔
”گلوبل وارمنگ“ کا زمانہ ہے، سیلاب نوح کے اوقات آچکے ہیں۔ ایک سال کے قریب عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم اپنے پیارے سندھ سے فالتو پانی کو نہیں نکال سکے۔ ہماری ہزاروں انسانی بستیاں پانی میں ڈوبی ہوئی نظر آتی ہیں۔ کیا ہم سب ہر روز ٹیلی ویژن کی آنکھوں سے یہ تمام نظارے نہیں دیکھ رہے؟ ان سیلابوں نے ہمیں تباہ و برباد کر دیا ہے۔
ہماری ترقی کا پہیہ رک چکا ہے، ہماری زراعت تقریباً تباہی کے کنارے تک پہنچ چکی ہے، ہماری صنعت و حرفت بھی تقریباً غرق ہو کر رہ گئی ہے۔ سمندری آس پاس کے علاقے ہزاروں میلوں تک تباہی کا نظارہ پیش کر رہے ہیں، اس طرح کا بارش کے پانی کا طوفان پہلی دفعہ پاکستان میں نہیں آیا۔ اس سے قبل بھی ایک تباہ کن پانی کے طوفان آچکے ہیں۔ ہم بار بار پانی کی کمی اور زیادتی کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ کیا ہم نے اب تک ان طوفانوں کو اپنے قابو میں لانے کا کوئی موثر پروگرام بنایا ہے؟ ہم ایسا کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی کے اس زمانے میں ہم ان قدرتی آفات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ شرط صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم میں ان مشکلات کا مقابلہ کرنے کا عزم اور حوصلہ موجود ہو۔ اس موقع پر جاپانی زلزلوں کی مثال اپنے سامنے رکھیں۔ غور کریں کہ جاپان کی بہادر اور دوراندیش قوم نے کس طرح زلزلوں کی تباہی اور شدت پر کنٹرول کر رکھا ہے۔ جاپان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ زلزلے آتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں سرزمین جاپان ہر وقت شدید زلزلوں کی لپیٹ میں رہتی ہے۔ جاپانی قوم نے اس خطرے سے کامیابی سے مقابلہ کرنے کیلئے جاپان میں ”زلزلہ پروف“ عمارتیں بنا رکھی ہیں۔ زلزلے آتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ عمارتیں بھی ”لرزنا“ شروع کر دیتی ہیں مگر وہ گرنے سے بچ جاتی ہیں۔
جاپان جہاں دنیا میں سب سے زیادہ زلزلے آتے ہیں وہاں ہی جاپانی قوم نے آسمان کو چھوتی ہوئی عمارتیں بنا رکھی ہیں۔ اس طرح جاپان کی حیرت انگیز ترقی کو وہاں کے آئے دن آنےوالے خوفناک زلزلے نہ روک سکے۔ پاکستان کو جاپان کے طریقوں کو اپنانا ہوگا تاکہ ہم بھی زلزلوں کی بربادی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں۔ بھارت کو ایک پسندیدہ ترین ملک قرار دینے پر بات ہو رہی تھی مگر اس بحث کا رخ جاپان کے زلزلوں تک پہنچ گیا۔
امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان کو تباہ کرتے ہوئے اسے اپنا غلام بنا لیا تھا۔ جاپان نے خاموشی سے اسلحہ کی دوڑ چھوڑ کر اقتصادی ترقی کی طرف دھیان دیا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ جاپان نے ہر میدان میں ترقی کر کے تمام دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ افسوس کہ ہم جاپان کی مثال سامنے رکھ کر ترقی کے میدانوں میں دوڑ نہ لگا سکے۔
1971ءمیں بھارت نے ہمیں جغرافیائی وحدت میں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم بھی جاپان کی طرح حیرت انگیز ترقی کرتے اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کو ایشیا کا ایک اور ٹائیگر بنا دیتے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ دفاعی لحاظ سے وہی قوم ناقابل تسخیر ہوتی ہے جو صنعتی اور اقتصادی ترقی میں دوسری اقوام سے آگے ہو۔ ہمیں بھی 1971ءکے سیاسی اور معاشی نقصانات کا ازالہ اس طرح کرنا چاہئے تھا جس طرح کہ جاپان کی تباہ شدہ قوم نے ہر میدان میں حیرت انگیز ترقی کر کے اپنی شکست کا خاطر خواہ بدلہ لے لیا تھا۔
بھارت نے ہمیں ہر موقع پر دھوکہ دیا اور اس طرح اچانک کشمیر میں اپنی افواج کو اتار کر بھارت نے 1947ءمیں ریاست جموں و کشمیر کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ بھارت آج تک کشمیریوں کو انکے پیدائشی حق خود ارادیت سے محروم رکھے ہوئے ہے۔ بھارت نے کشمیر پر سلامتی کونسل کی جانب سے منظور شدہ قراردادوں کو ساری دنیا کے سامنے ”پھاڑ چیر“ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا تھا، آج بھی کشمیری بھارتی غلامی کی زنجیروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کس منہ سے ہمارے حکمران بھارت کو ایک پسندیدہ ترین قوم ہونے کا خطاب دینگے؟ کیا ایسے حالات میں ہم خود اپنے ہی منہ پر ایک زوردار طمانچہ لگا کر اپنی قومی غیرت کا ”ستیاناس“ نہ کر دینگے؟
بھارت کو کہہ دو کہ وہ سب سے پہلے کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق خودارادیت دینے کا اعلان کرے۔ کشمیریوں کو آزادی مل جانے کے بعد ہم بھارت کو ایک پسندیدہ ترین ملک قرار دینگے، اسکے ساتھ ہمیشہ برابری کی بنیادوں پر اکٹھے زندہ رہنے کا اعلان کرینگے۔ جراتمند بہادر قومیں ایسے ہی کیا کرتی ہیں۔
پاکستان بیرونی دباﺅ کے تحت بھارت کو پسندیدہ ترین قوم کا خطاب دینے کی راہ پر گامزن ہے۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کے لوگ اس پر سخت پریشان ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں نے اگر کوئی اس طرح کا قدم اٹھایا تو پورا پاکستان اور آزاد کشمیر حکمرانوں کےخلاف اٹھ کھڑا ہوگا۔ بھارت وہ ملک ہے جس نے روز اول سے ہی کشمیریوں اور پاکستانیوں کا قتل عام جاری رکھا ہوا ہے۔ ریاست جموں و کشمیر اقوام متحدہ کی 1948ءاور 1949ءکی بااتفاق رائے منظور شدہ قراردادوں کے مطابق ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ اس جھگڑے کا فیصلہ ابھی ہونا باقی پڑا ہے۔ بھارت نے یکطرفہ طور پر بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کشمیر کو ہڑپ کر لیا ہوا ہے۔
بھارت نے اپنے آئین کو بھی کشمیر میں لاگو کر رکھا ہے۔ اب تو بھارت نے کھل کر مسئلہ کشمیر کی موجودگی سے ہی انکار کر دیا ہے۔ پاکستان نے کبھی بھی کشمیر پر بھارتی دعوے کو تسلیم نہیں کیا، مسئلہ کشمیر پر پاکستان ایک لازمی فریق مقدمہ ہے۔ ایک کروڑ سے زائد ریاست جموں و کشمیر کے مظلوم اور محکوم لوگوں نے کبھی بھی بھارتی موقف کو تسلیم نہیں کیا۔ پورا پاکستان اور پاکستانی قوم مسئلہ کشمیر پر کشمیریوں کےساتھ ہے۔
کشمیری اپنی آزادی کیلئے بھارت کےخلاف برسرپیکار ہیں۔ دنیا میں جگہ جگہ آئے دن کشمیری اپنی آزادی کیلئے بھارت کےخلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ بھارت نے ہمیں ہمارے حصے کے پانی سے محروم رکھا ہوا ہے۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ برسات کے موسموں میں جب ہمیں پانی کی ہرگز ضرورت نہیں ہوتی تو بھارت ہمیں سیلابی پانی میں ڈبو دینے کی کوششوں میں لگ جاتا ہے۔ پانی کی جب ہمارے ہاں اشد ضرورت ہوتی ہے تو بھارت ہمیں پانی کے ایک ایک قطرے سے محروم کر دیتا ہے۔
گرمیوں کے موسم میں جب پانی کے قحط کو دیکھنا مقصود ہو تو آپ لوگ تھر کے علاقوں کے علاوہ جھنگ، سرگودھا وغیرہ میں جائیں تو آپ کو ”کربلا“ کا سماں نظر آئےگا، ان گنت لوگوں کے مویشی پانی نہ ہونے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ ”ہرے بھرے کھیت“ دیکھتے ہی دیکھتے ویرانوں اور ریگستانوں کا نظارہ دیتے ہیں۔ میں اس قسم کے نظارے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔ ہمارے پیارے وطن میں یہ سب کچھ کیوں ہوتا ہے؟ یہ صرف اور صرف اس لئے ہوتا ہے کہ بھارت نے کشمیریوں کو غلام بنا رکھا ہے اور وہاں پانی کے تمام ”سرچشموں“ پر فوجی پہرے بٹھا رکھے ہیں، ابھی تو اور بھرپور قیامت ہمارے انتظار میں بیٹھی ہے۔
”گلوبل وارمنگ“ کا زمانہ ہے، سیلاب نوح کے اوقات آچکے ہیں۔ ایک سال کے قریب عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم اپنے پیارے سندھ سے فالتو پانی کو نہیں نکال سکے۔ ہماری ہزاروں انسانی بستیاں پانی میں ڈوبی ہوئی نظر آتی ہیں۔ کیا ہم سب ہر روز ٹیلی ویژن کی آنکھوں سے یہ تمام نظارے نہیں دیکھ رہے؟ ان سیلابوں نے ہمیں تباہ و برباد کر دیا ہے۔
ہماری ترقی کا پہیہ رک چکا ہے، ہماری زراعت تقریباً تباہی کے کنارے تک پہنچ چکی ہے، ہماری صنعت و حرفت بھی تقریباً غرق ہو کر رہ گئی ہے۔ سمندری آس پاس کے علاقے ہزاروں میلوں تک تباہی کا نظارہ پیش کر رہے ہیں، اس طرح کا بارش کے پانی کا طوفان پہلی دفعہ پاکستان میں نہیں آیا۔ اس سے قبل بھی ایک تباہ کن پانی کے طوفان آچکے ہیں۔ ہم بار بار پانی کی کمی اور زیادتی کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ کیا ہم نے اب تک ان طوفانوں کو اپنے قابو میں لانے کا کوئی موثر پروگرام بنایا ہے؟ ہم ایسا کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی کے اس زمانے میں ہم ان قدرتی آفات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ شرط صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم میں ان مشکلات کا مقابلہ کرنے کا عزم اور حوصلہ موجود ہو۔ اس موقع پر جاپانی زلزلوں کی مثال اپنے سامنے رکھیں۔ غور کریں کہ جاپان کی بہادر اور دوراندیش قوم نے کس طرح زلزلوں کی تباہی اور شدت پر کنٹرول کر رکھا ہے۔ جاپان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ زلزلے آتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں سرزمین جاپان ہر وقت شدید زلزلوں کی لپیٹ میں رہتی ہے۔ جاپانی قوم نے اس خطرے سے کامیابی سے مقابلہ کرنے کیلئے جاپان میں ”زلزلہ پروف“ عمارتیں بنا رکھی ہیں۔ زلزلے آتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ عمارتیں بھی ”لرزنا“ شروع کر دیتی ہیں مگر وہ گرنے سے بچ جاتی ہیں۔
جاپان جہاں دنیا میں سب سے زیادہ زلزلے آتے ہیں وہاں ہی جاپانی قوم نے آسمان کو چھوتی ہوئی عمارتیں بنا رکھی ہیں۔ اس طرح جاپان کی حیرت انگیز ترقی کو وہاں کے آئے دن آنےوالے خوفناک زلزلے نہ روک سکے۔ پاکستان کو جاپان کے طریقوں کو اپنانا ہوگا تاکہ ہم بھی زلزلوں کی بربادی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں۔ بھارت کو ایک پسندیدہ ترین ملک قرار دینے پر بات ہو رہی تھی مگر اس بحث کا رخ جاپان کے زلزلوں تک پہنچ گیا۔
امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان کو تباہ کرتے ہوئے اسے اپنا غلام بنا لیا تھا۔ جاپان نے خاموشی سے اسلحہ کی دوڑ چھوڑ کر اقتصادی ترقی کی طرف دھیان دیا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ جاپان نے ہر میدان میں ترقی کر کے تمام دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ افسوس کہ ہم جاپان کی مثال سامنے رکھ کر ترقی کے میدانوں میں دوڑ نہ لگا سکے۔
1971ءمیں بھارت نے ہمیں جغرافیائی وحدت میں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم بھی جاپان کی طرح حیرت انگیز ترقی کرتے اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کو ایشیا کا ایک اور ٹائیگر بنا دیتے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ دفاعی لحاظ سے وہی قوم ناقابل تسخیر ہوتی ہے جو صنعتی اور اقتصادی ترقی میں دوسری اقوام سے آگے ہو۔ ہمیں بھی 1971ءکے سیاسی اور معاشی نقصانات کا ازالہ اس طرح کرنا چاہئے تھا جس طرح کہ جاپان کی تباہ شدہ قوم نے ہر میدان میں حیرت انگیز ترقی کر کے اپنی شکست کا خاطر خواہ بدلہ لے لیا تھا۔
بھارت نے ہمیں ہر موقع پر دھوکہ دیا اور اس طرح اچانک کشمیر میں اپنی افواج کو اتار کر بھارت نے 1947ءمیں ریاست جموں و کشمیر کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ بھارت آج تک کشمیریوں کو انکے پیدائشی حق خود ارادیت سے محروم رکھے ہوئے ہے۔ بھارت نے کشمیر پر سلامتی کونسل کی جانب سے منظور شدہ قراردادوں کو ساری دنیا کے سامنے ”پھاڑ چیر“ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا تھا، آج بھی کشمیری بھارتی غلامی کی زنجیروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کس منہ سے ہمارے حکمران بھارت کو ایک پسندیدہ ترین قوم ہونے کا خطاب دینگے؟ کیا ایسے حالات میں ہم خود اپنے ہی منہ پر ایک زوردار طمانچہ لگا کر اپنی قومی غیرت کا ”ستیاناس“ نہ کر دینگے؟
بھارت کو کہہ دو کہ وہ سب سے پہلے کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق خودارادیت دینے کا اعلان کرے۔ کشمیریوں کو آزادی مل جانے کے بعد ہم بھارت کو ایک پسندیدہ ترین ملک قرار دینگے، اسکے ساتھ ہمیشہ برابری کی بنیادوں پر اکٹھے زندہ رہنے کا اعلان کرینگے۔ جراتمند بہادر قومیں ایسے ہی کیا کرتی ہیں۔