ٹرمپ کی کتاب دی آرٹ آف دی ڈیل۔

Feb 10, 2025

کامران نسیم بٹالوی

ٹرمپ کو دوسری بار امریکی صدر منتخب ہونے پر تمام دنیا انہیں کامیاب سیاستدان سمجھتی ہے لیکن سیاست دان سے قبل ٹرمپ ایک کامیاب بزنس مین اور لکھاری بھی ہیں کاروباری حکمت عملی اور سیاسی مشاہدات کے حوالے سے ان کی اٹھ کتب شائع ہو چکی جن میں سے سب سے زیادہ پذیرائی حاصل کرنے والی کتاب "دی ارٹ اف دی ڈیل' (The Art of the deal)کو قرار دیا جاتا ہے یہاں تک کہ دنیا کی بہت سی مختلف زبانوں میں اس کتاب کو ترجمہ کے ساتھ چھاپا جا چکا ہے 1987 میں لکھی جانے والی یہ کتاب اس وقت کی ہے جب ٹرمپ کہ امریکی سیاست میں انے اور صدر بننے کے دور دور تک امکانات کا نام و نشان تک نہ تھا لیکن کتاب کے بہت سے نکات ٹرمپ کی مستقل مزاجی اور حکمت عملیوں کے ائینہ دار ہیں اگرچہ یہ کتاب کاروباری لین دین کے اصولوں پر مرتب کی گئی ہے مگر اج کے تناظر میں جب اس کتاب کو شائع ہوئے 37 سال بیت چکے ہیں ٹرمپ اپنی اس کاروباری حکمت عملیوں اور داؤ پیج کو نہ صرف امریکی سیاست بلکہ بین الاقوامی سیاست میں بھی بھرپور ازما رہے ہیں اور منصب صدارت پر بیٹھتے ہی ایسے فیصلے اور حکم نامہ جاری کر رہے ہیں کہ نہ صرف ڈیموکریٹس بلکہ دنیا کے بہت سے ممالک بھی چکرا گئے ہیں کہ اخر ٹرمپ کرنے کیا جا رہے ہیں دیکھا جائے تو ٹرمپ کا پہلا دور صدارت کسی حد تک ان کے لیے لرننگ فیز تھا لیکن اس بار ٹرمپ پوری تیاری اور منصوبہ جات کے ہمراہ ائے ہیں لیکن ٹرمپ اخر جارحانہ سیاست کیوں کرتے ہیں اور وہ کون سے محرکات ہیں تو اس کو جاننے کے لیے ٹرمپ کی کتاب دی ارٹ اف دی ڈیل (The Art of the deal) کی ان سطور کو ذہن نشین ہونا چاہیے جس میں ٹرمپ کا کہنا ہے کہ "اپنی مضبوط پوزیشن کا استعمال  کرتے ہوئے سازگار شرائط پر بات چیت کریں اس کے  علاوہ ہمیشہ ڈیل یا معاملات طے کرنے کے لیے جارہانہ رویہ اپنائیں تاکہ سامنے والا فریق دفاعی پوزیشن پر ا سکے ا اور جب وہ دفاعی پوزیشن پر ا جائے تو اس سے ڈیل کر کے اپنی بات کو منوانا اسان ہو جاتا ہے ان سودے بازی کے اصولوں میں ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کریں جن کے ساتھ اپ کا کاروبار ہے" ویسے تو اور بھی باتیں ہیں اس کتاب میں مگر یہ چند نکات ٹرمپ کی کاروباری و سیاسی ذہنیت کا خلاصہ بیان کرتے ہیں اور اس کے توسط ٹرمپ کے عجیب و غریب صدارتی حکم ناموں کے مخمسے میں پھنسے ہوئے لوگ اپنے جوابات حاصل کر سکتے ہیں صدر بنتے ہی اپنے پڑوسی ممالک کینیڈا اور میکسیو کو کے ساتھ پھڈے بازی اور ان پر 25 فیصد ٹیرف کا نفاذ کا اعلان اور پھر ایک مہینے کے لیے اس فیصلے کی واپسی، افغانستان سے اپنے دفاعی سامان کی واپسی کا مطالبہ، ایران پر مزید سخت ترین پابندیوں کا حکم نامہ ،روس اور چین کو بھی پابندیوں کی دھمکی امریکہ میں بسے تارکین وطن کی جبرا بے دخلی اور گوانتا ناموں بے جزیرہ میں اباد کاری اور بھارتی اور ونز ویلاکے غیر قانونی امریکہ میں بیٹھے تارکین وطن کی جہازوں کے ذریعے ہتک امیز جبری بے دخلی ان سبک  رفتار اور غیر متوقع فیصلوں کا مقصد ٹرمپ کارڈ ہے جس  کے تحت ان تمام متاثرین ممالک کو کچھ لو اور دو کے درمیانی راستے پر لاتے ہو گٹنوں بل لانا ہے باقی معاملات ایک طرف اہم بات جو یہاں قابل ذکر ہے کہ اس وقت امریکہ میں 11 ملین مطلب ایک کروڑ 10 لاکھ غیر قانونی تارکین وطن اباد ہیں اور یہ کسی بھی طرح سے ممکن نہیں کہ ٹرمپ ان کروڑسے زیادہ لوگوں کو ان کے ملکوں میں واپس بھیج پائیں گے چند سینکڑوں یا ہزاروں افراد کی ملکوں میں واپسی محض ایک دباؤ پیدا کرنے کی  تکنیک ہے اس وقت اہم مسلہ جو  کہ بیشتر امریکیوں کی درد سر بنا ہوا ہے وہ ورلڈ بزنس ٹائیکون ایلن مسک کی ٹرمپ کے ساتھ گوڑھی یاری اور ٹرمپ کی اس پر نوازشات کے امبار ہیں جس کے تحت غیر منتخب ہونے کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ حکومت میں اسکی  اہم ترین شراکت داری ہے اور ایلن مسک کو کفایت شاری یعنی امریکی خرچہ کم کرنے کے لیے ڈیپارٹمنٹ اف گورنمنٹ ایفیشنسی کا سربراہ بناتے ہوئے ٹرمپ کا مشیر خاص بنا دیا گیا ہے جس نے بیوروکریٹس کی ڈاون سائزنگ اور یو ایس ایڈ(US AID) جیسے اداروں کا تحلیل کرنا شامل ہے اس ضمن میں مسک کے اس فیصلے سے ہٹ کر یہ بات مضحکہ خیز نظر اتی ہے کہ بجائے امریکی امریکہ اپنے ٹیکس دہندہ شہریوں کا پیسہ ان پر خرچ کرنے  اور سہولیات دینے کی بجائے انکل سام کی پالیسی کو جوں کا تو برقرار رکھے ہوئے ہے اور اپنے شہریوں کا پیسہ دوسرے ملکوں کی جنگوں میں جھونکا جا رہا ہے یہ کسی بھی صورت میں کفایت شعاری نہیں بلکہ ٹوپی ڈرامہ ہے اس سب منظر نامہ میں سوالات کے جوابات میں ٹرمپ کی کتاب "دی ارٹ اف دی ڈیل" کے نکات میں مل جائیں گے لیکن اس تمام فیصلوں کی بدولت ایک جمہوری صدر ہونے کے باوجود ٹرمپ کو ون ورلڈ مین قرار دیتے ہوئے دوسری دنیا تو کیا امریکیوں کی جانب سے ہی ایک آمر کا لقب دے دیا گیا ہے حالانکہ یہ ابھی ٹرمپ کی حکومت کا اغاز ہے اگر مشرق وسطی کی بات کی جائے تو فلسطینیوں کے بارے میں ٹرمپ کے بیانات اور غزہ  پر قبضہ صیہونی مائنڈ سیٹ کا علمبردار ہے جس میں ہم کسی چیز کو مبہم قرار نہیں دے سکتے اور یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ٹرمپ ہی تھے جنہوں نے پچھلی حکومت میں تل ابیب کی بجائے یورو شلم جو کہ فلسطینیوں کی ملکیت ہے کو جبرا اسرائیل کا نہ صرف دارالحکومت قرار دیا بلکہ اس کا افتتاح بھی کیا اسرائیل نواز ٹرمپ کے سارے اقدامات ایک طرف لیکن غزہ کے حوالے سے ان کی امریکہ کی ناجائز اولاد اسرائیل کے لیے کے بنایا گیا منصوبہ سوائے ان کی خام خیالی اور گیدڑ بھپکیوں کے کچھ نہیں ہو سکتا کیونکہ فلسطین کا ہر شہری  اپنی اخری سانس تک اپنے ملک اور وطن کے دفاع کی خاطر جان دے دے گا مگر فلسطین نہیں چھوڑے گا اور یہ بھی کہ یہ کیسی مضحکہ خیز تجویز ہے کہ غزہ کے شہری پڑوسی ملکوں میں چلے جائیں اور تعمیر بھی پڑوسی ملک کریں تین ملین کے لگ بھگ شہریوں کو کون سا ملک اپنائے گا جبکہ امریکہ اپنے ملک سے لوگوں کو بے دخل کر رہا ہے اور دوسروں کو پناہ دینے کی نصیحت کر رہا ہے امریکی صدر ٹرمپ کو فلسطین کے بارے میں بیان دینے سے قبل ماضی میں جا کر برطانیہ جاپان ویتنام اور افغانستان میں بننے والی اپنی درگت کو یاد رکھنا چاہیے۔

مزیدخبریں