سٹیئرنگ کمیٹی جس کے لئے دراصل میں لندن چھوڑ کر پاکستان آیا تھا کی رپورٹ کا پہلا حصہ سال اوّل کے اختتام پر اور دوسرا حصہ دوسرے سال شائع ہوا۔ اس کی کئی سفارشات کو ان دو سالوں کے دوران اور کچھ کو بعد میں عملی جامہ پہنایا گیا۔
اسکے بعد ایک کمیٹی نوٹیفائی کی گئی جسکا نام کمیٹی برائے نفاذ سفارشات رکھا گیا اور جسکا کام سٹیئرنگ کمیٹی کی باقی ماندہ سفارشات کو متعلقہ حکومتی اور دیگر اداروں سے نافذ کروانا تھا۔ راقم بھی اس کمیٹی کا رکن اور کنوینر تھا۔ لیکن حکومت بدلنے کے بعد اسکی ایک بھی میٹنگ نہیں ہوئی۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ اپنی موت خود مر گئی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عامہ النّاس کا ایک بہت بڑا حصہ سود سے خائف اور اس سے دور رہنا چاہتا ہے ۔ اس میں ایک بھاری تعداد بزنس کمیونٹی کی بھی ہے۔ چھوٹے اور درمیانی سائز کے کاروبار کی طرف سے سود کی وجہ سے بنک قرضوں سے اجتناب برتا جاتا ہے۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان نے برطانوی ڈیولپمنٹ ادارے کی مدد سے ایک مطالعہ اور تحقیق کروائی جس میں پاکستانی معاشرے میں اس بارے میں بہت کارآمد معلومات سامنے آئیں۔ اس سے پوری طرح یہ بھی واضح ہوا کہ اگر عام آدمی کی اقتصادی دائرہ میں شمولیت کے لئے اسلامی بنکنگ کی ترویج اور اس تک عام آدمی کی رسائی کو آسان بنایا جائے۔ اس ضمن میں راقم نے تمام بنکوں کو آسان اکاؤنٹ کے نام سے صرف شناختی کارڈ کی مدد سے اکاؤنٹ کھولنے کا پابند کیا۔ اس میں اسلامی اور روائتی دونوں سسٹم کے بنک شامل تھے۔
اب جبکہ اسلامی بنکنگ کی ضرورت مستند تحقیق سے ثابت ہوگئی ہے تو اس بات کا بھی اپنی جگہ مشاہدہ کیا کہ ماضی قریب میں اسلامی اقتصادیات کاجو سفر کوئی چار دہائیاں پہلے رواں دواں ہوا اس میں بہت حد تک پختگی آ گئی ہے۔
اس کے باوجود ابھی یہ سفر جاری ہے اور منزل دور ہے۔ بہت سی باتیں ابھی تک وضاحت طلب ہیں۔ مسائل بھی ہیں۔ لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسلامی بنکاری کے لئے پٹری بچھ گئی ہے، انجن اور ریل گاڑی کے ڈبے موجود ہیں لیکن ان کے معیار کو بلند کرنا ابھی باقی ہے۔
صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اسلامی بنک نہ صرف شرعیہ کے اصولوں کے پابند ہیں بلکہ ان پر اپنے مرکزی بنک اور ریگولیٹری اتھارٹیز کے عائد کردہ ضوابط اور قواعد کا بھی اطلاق ہوتا ہے۔ اس طرح اسلامی بنکوں پر روائتی بنکوں کے مقابلہ میں زیادہ پابندیاں اور کنٹرول عائد ہوتے ہیں۔ یوں وہ نہ صرف عندالطلب اور دیگر قابل ادا واجبات کا 5% نقدی (کیش) کی صورت میں رکھنے کے پابند ہیں بلکہ اس سے تین گنا یعنی 15% سٹیچیٹوری لیکویڈیٹی ریشو (SLR) بھی رکھنا ضروری ہے۔ SLR کی شرط پوری کرنے کے ل لئے انوسٹمنٹ کے ایسے انسٹرومنٹ چاہئیں جو بآسانی مارکیٹ میں بیچے جا سکیں اور جن کی ریٹنگ اعلیٰ ہو اور وہ بہت محفوظ ہوں جیسے گورنمنٹ بانڈ۔ اسلامی بنک اس سلسلہ میں ایک پریشانی کا شکار ہیں کہ ایسے بانڈ سوائے حکومتی صکوک کے موجود ہی نہیں ہیں۔ اس طرح اسلامی بنکوں میں کاروبار کی بڑھوتی اس بات پر منحصر ہے کہ حکومت پاکستان کتنی تعداد میں صکوک جاری کرتی ہے۔ حکومت کو صکوک جاری کرنے کے لئے ایسے اثاثے درکار ہوتے ہیں جنہیں سیکیورٹی بنا سکے اور ان کی کچھ آمدن بھی ہو جس کی بنیاد پر جو بھی سودا بنایا جائے اس میں حقیقت کا کچھ رنگ ہو۔ میرا بہت سا وقت وزارت خزانہ سے اس معاملہ کو حل کرنے میں صرف ہوا مگر محدود سی کامیابی مل سکی۔
دنیا بھر کے بنکنگ نظام میں بنکوں کا باہمی انحصار ایک ضروری امر ہے۔ اس کے بغیر عالمی تجارت، اقوام عالم کے باہمی معاہدے، انٹرنیشنل پروجیکٹ وغیرہ ممکن نہیں۔ جہاں ہر ملک میں مرکزی بنک اور ریگولیٹری اتھارٹیز اپنے ملک کے بنکوں پر نظر رکھتی ہیں وہیں کچھ انٹرنیشنل ادارے دنیا کے بنکنگ نظام میں استحکام کے لئے کوشاں ہیں۔ وہ اس کے لئے بین الاقوامی سطح پر مل کر کام کرتے ہیں۔ ان میں سر فہرست ’’بنک آف انٹرنیشنل سیٹلمنٹ (BIS)’’ہے۔ اس ادارہ کے تحت فنانشل سٹیبیلٹی بورڈ (FSB) بھی آتا ہے جو عالمی بنکنگ نظام میں استحکام کے لئے سٹینڈرڈ بناتا اور لاگو کرتا ہے۔ اسلامی بنکوں کے لئے بھی اسی طرح کا نظام ISFB کرتا ہے۔
اوپر کی باتوں کا مطلب ہے کہ اسلامی بنکوں پر بھی دنیا میں رائج اصول اور پابندیاں لاگو ہوتی ہیں جو ان میں استحکام سے منسلک شرائط کو اپنانے کا تقاضہ کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ اسلامی بنکوں کیلئے اکاؤنٹنگ اور آڈٹنگ سٹینڈرڈ بنانے اور ان پر عمل کروانے کا کام ایک خصوصی ادارہ آئیوفی (AAOIFI)کرواتی ہے۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان نے پاکستان میں AAOIFI کے سٹینڈرڈ کا اردو میں ترجمہ شائع کیا ہے جو پاکستانی اسلامی بنکرز، مفتیان کرام اور اکاؤنٹنٹ کے لئے بہت فائدہ مند ثابت ہوگا کیونکہ سٹیٹ بنک آف پاکستان بتدریج ان سٹنڈرڈ کو لاگو کر رہا ہے تو انکو اچھی طرح سمجھنا اور جاننا تمام ماہرین کے لئے ضروری ہے۔
پاکستان میں 1985 کے وسط سے جنرل ضیاء الحق کے اسلامی شریعہ کے نفاذ کے سلسلہ میں حکومت نے تمام بنکنگ کو اسلامی طریقہ پر استوار کرنے کے احکام جاری کئے۔ اس کے نتیجہ میں سود کو ناجائز اور غیر قانونی قرار دیدیا گیا۔ یہ سب اس قدر عجلت میں کیا گیا کہ یہ صرف نام کی تبدیلی ہوئی جس میں قوانین میں سود کو منافع یا مارک اپ سے بدل دیا گیا۔ اس فیصلہ کے خلاف حکومت عدالت چلی گئی جہاں سے ایک حکم امتناعی لے کر روائتی سودی بنکاری کو پھر سے ملک میں قانونی تحفظ مل گیا۔ اس حکم امتناعی کو بھی شریعہ کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے لیکن پچھلے دو عشروں سے یہ معاملہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ اس کیس میں جس چیز کو سب سے بڑا مسئلہ بنایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ کیا موجودہ دور کا سود وہی ربا ہے جسکو قرآن و حدیث میں ناجائز قرار دیا گیا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38