قیامت سے پہلے قیامت آنے والی ہے، منی بجٹ لانے کی تیاریاں مکمل ہیں۔ حکومت کا درآمدات کھولنے پر غور جاری ہے۔ کچھ اشیاء پر ریگولیٹری اور کسٹمز ڈیوٹیز کم کی جائیں گی۔ رواں مالی سال کے ابتدائی 7 ماہ کے دوران ریونیو کمی 218ارب روپے تک پہنچ گئی۔ 50ہزار روپے سے زائد کی خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط پر عملدرآمد شروع ہوگیا ہے۔ 2روپے اضافے کے ساتھ چینی 85روپے فی کلو ہوگئی ہے۔ سارے سماج دشمن عناصر مافیاز گننے میں نہیں آسکتے۔ دہشت گرد اور مافیاز میں گہری مماثلت ہے۔ ذخیرہ اندوز اور ملاوٹ کرنے والے مافیاز کیا کسی دہشت گرد سے کم ہیں۔ ادارہ شماریات نے تسلیم کیا ہے کہ مہنگائی کی شرح 10سال کی بلندترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ اور آئی جی میں مقابلہ حیران کن ہے۔ آئی جی سندھ وفاق کو انگوٹھا دکھا رہے ہیں۔ 15ماہ میں سرکاری قرض و واجبات میں 40فیصد اضافہ ہوگیا ہے جو FRDLایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔ اس وقت مجموعی قرض کا حجم 402کھرب 23ارب 30کروڑ روپے ہے۔ احساس پروگرام 2کھرب روپے سے شروع ہوا ہے جس کے تحت ملک کی 70لاکھ مستحق خواتین کو کفالت کارڈ کے ذریعے ماہانہ 2ہزار روپے دیئے جائیں گے۔ کفالت کارڈ پر یوٹیلیٹی سٹوروں سے راشن بھی دیا جائے گا۔ غریب بچوں کیلئے تعلیم وظائف کا اعلان بھی ہوا ہے۔ زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر ملازمت پیشہ لوگوں کی تنخواہوں اور اجرتوںمیں بھی ارکان پارلیمنٹ کی طرح 100فیصد اضافے کا بندوبست کیا جائے گا۔ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد 40فیصد سے بڑھ کر 23لاکھ 42ہزار ہوگئی ہے۔ محکمہ تعلیم اور اس کے متعدد ذیلی دفاتر کی ضرورت ہی نہیں رہتی اگر ہر سرکاری سکول اور کالج خودمختار کر دیا جائے، سینئر اساتذہ پر مشتمل مینجمنٹ کمیٹی چلائے، اخراجات کے مطابق وسائل پیدا کرے، نام نہاد کارکردگی کے ساتھ کچھ سامنے نہیں آیا۔ بیچلر کی جگہ ایسوسی ایٹ ڈگری ساتھ ہی 4سالہ آنرز پروگرام اور اب پنجاب کے 54کالجوں کو کمیونٹی کالجوں میں تبدیل کرنے کی کیا ضرورت اور حکمت ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہر ضلع کے سرکاری پوسٹ گریجوایٹ کالج کو اسی ضلع کے نام سے منسوب یونیورسٹی کا درجہ دے دیا جائے تاکہ بچے بچیوں کی اپنے علاقوں سے مائیگریشن رک جائے۔ ہر ضلع یکساں ترقی کرے۔ میٹرک، ایف اے، بی اے اور ایم اے کے طلبہ و طالبات کیلئے لازمی سوشل سروس کا 8ہفتے کا انٹرن شپ پروگرام شروع کیا جائے جس کے تحت قیمتوں کی چیکنگ، ٹریفک کے بہائو ، صحت و صفائی کی ڈیوٹی میں سرکاری اہلکاروں کی معاونت کریں۔ میلوں ٹھیلوں، غیرضروری چھٹیوں، میچوں سے قوم آگے نہیں بڑھے گی۔ مقروض ہونا دراصل غلامی اور دوسرے کا دست نگر ہونا ہے۔ محکمہ تعلیم کے محض لیٹر باکس کا کام کرنے والے ڈائریکٹروں، ڈی پی آئی، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی، دانش سکول جیسے پراجیکٹ ختم کر دیئے جائیں۔ نیب دانش سکول کمپنی کا کچاچٹھا کھولے تو سن کر لوگ کان پکڑیں گے۔ دانش سکولوں نے کونسے دانشور ، سقراط بقراط پیدا کئے ہیں۔
چرس پکڑی جاتی ہے، منشیات فروش گرفتار ہوتے ہیں لیکن نشے کی لت تو نہیں جاتی۔ حکومت کے اتحادی بے چین ہیں تو خود عوام کتنے بے چین ہوں گے۔ مہنگائی سے لوگوں کی زندگیاں مشکل میں ہیں۔ چند مافیاز فائدہ اٹھا رہے ہیں، مافیاز اور ذخیرہ اندوز مہنگائی کر رہے ہیں۔ مہنگائی کا سونامی معیشت کھا گیا، حکومتی اتحادیوں ق لیگ، ایم کیو ایم اور بی این اے کا موقف ہے کہ وہ قومی مفاد میں حکومت کے ساتھ ہے لیکن ان کے ساتھ طے شدہ معاہدوں پر عمل نہیں ہو رہا۔ مذاکرات، تحفظات، ٹیموں، کمیٹیوں سے مطلوبہ نتائج کم ہی سامنے آتے ہیں۔ کام پر مٹی میں ڈالنا ہو تو کمیٹی بنا لی جائے۔ کمیٹی کا مطلب ہوتا ہے ’’کم مٹی‘‘۔
ایک سال میں اسٹیٹ بینک کے منافع میں 95فیصد کمی ہوئی ہے۔ بینک کے مطابق 14.6فیصد عمومی گرانی عارضی اور تخمینے کے مطابق ہے۔ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ کی پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی کے بعد پی ٹی آئی نے بھی مخالفت کر دی ہے۔ 54ممالک، 1.2ارب آبادی اور 2.4کھرب ڈالر معیشت والے خطے افریقہ نے وسطی ایشیائی ریاستوں اور چین کی منڈیوں تک اپنی مصنوعات کی رسائی کیلئے سی پیک (چین پاکستان اقتصادی راہداری) اور گوادر پورٹ کو استعمال کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ بجلی مہنگی ہونے سے ہر سال 2ارب ڈالر سرمایہ کا راستہ بند ہوا ہے۔ چین، بنگلہ دیش اور بھارت میںبجلی سستی ہے۔ انرجی ٹیرف فکس کرکے ریفنڈز ادائیگی تیز نہ کی گئی تو فیکٹریاں اوربرآمدات رک جائیں گی۔
پاکستان نے آئی ایم ایف سے ریونیو ہدف میں مزید 300ارب روپے کمی کی درخواست کی ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی سے جان چھڑا کر آزادی حاصل کی تھی لیکن شہباز دور میں نئی 56کمپنیاں قائم کر دی گئیں۔ ضروری ہے کہ حکومت کی ڈائون اور رائٹ سائزنگ کی جائے۔ چودھری پرویزالٰہی نے پی ٹی آئی کو مشورہ دیا ہے کہ حالات سنبھالے اور خود بھی سنبھل کر چلے۔ اتحادیوںمیں فاصلے برقرار ہیں۔ مہنگائی سٹاک مارکیٹ کو بھی لے بیٹھی۔ انڈیکس 1222پوائنٹ اور مالیت 203ارب روپے کم ہوگئی۔ حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں اب تک ناکام نظر آرہی ہے جس کے پاس طاقت ہے، وہ کسی مافیا سے کم نہیں۔ وزیراعظم کو کوئی نیا مافیا نہیں طاقتور اشرافیہ کام کرنے سے روک رہی ہے۔ انہیں پتہ ہونا چاہئے کہ کون سی لابیز کام کر رہی ہیں۔ آج تک کوئی سیاسی پارٹی اپنے منشور کو عملی جامہ نہ پہنا سکی۔ منشور محض خانہ پری کیلئے ہوتے ہیں۔ اقتدار پر بیورو کریسی، جاگیردار اور خودغرض سیاستدان حاوی رہے۔ مولانا فضل الرحمن نے ن لیگ، پی پی اور اے این پی جن کے پیچھے وہ ساری زندگی بھاگتے رہے ان کی بے وفائیوں کے بعد اپنے تانگے میں جے یو آئی، این پی، اہل حدیث، پختونخوا ملی، قومی وطن اور جے یو پی بٹھا کر سواریاں پوری کرلی ہیں۔ تانگے والے کو تانگہ بھرنے سے مطلب ہوتا ہے۔ عمران خان کے نزدیک مافیا ملک کو پیچھے دھکیلنے کے در پے ہے۔ انہوں نے مسلم امہ کا صحیح نقشہ کھینچا ہے کہ مسلمان تقسیم، کشمیر پر او آئی سی کانفرنس نہ بلا سکے۔ دنیا میں صرف ایک کروڑ یہودی ہیں، مغرب میں کوئی ان کے خلاف ایک لفظ نہیں کہہ سکتا۔ مسلمان ایک ارب 30 کروڑ مگر تاریخ کے بدترین دور س گزر رہے ہیں۔ چودھری شجاعت نے عام آدمی کی صیح ترجمانی کی ہے کہ حکومت ہینڈ فین کو بھی لگژری قرار دے کر ٹیکس لگائے برقی پنکھے کو لگژری آئٹم میں شامل کرنے والوں کے باتھ رومز بھی ائرکنڈیشنڈ ہیں۔ ایک کروڑ نوکریاں 50 لاکھ گھر بنانے کے دعوے داروں نے لاکھوں گھر گرا دئیے۔ ملک مقروض کر کے لنگر خانے کھولے، آئی ایم ایف مزید ٹیکس لگا کر محصولات کا ہدف پورا کرنے پر بضد ہے۔ 27 حکومتی اداروں اور جائیدادوں کو نیلام کرنے کی اجازت د ے دی گئی ہے۔ وحدت کالونی کے سرکاری کوارٹروں کے وسیع ایریا پر نیا پنجاب سول سیکرٹریٹ بن سکتا ہے جہاں سارے سرکاری محکمے ایک ہی جگہ پر مرکوز ہو سکتے ہیں۔ ایوان عدل کے سامنے پارکنگ اور سڑک پر ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کے لئے گول باغ کے ایک حصے کو پارکنگ کے لئے مختص کر دیا جائے۔ گزشتہ مالی سال ملکی قرضوں میں 9300 ارب روپے اضافہ ہوا ہے 31 مارچ تک 3520 ارب وصولی کی ہدایت کار آئی ایم ایف نے کی ہے۔ آئندہ 2 ما میں ایک ہزار 110 ارب روپے جمع کرنا ہونگے۔ 6 ارب ڈالر کے عوض ہم جی حضوری پر مجبور ہیں۔ ابھی تو 45 کروڑ ڈالر کی تیسری قسط ملنی ہے ۔ گیس کے نرخوں میں 15 فیصد اضافہ آقا کے کہنے پر ہوا ہے گورننس اسے کہتے ہیں جیسے احکامات سپریم کورٹ کے چیف صاحب نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لئے جاری کئے ہیں کہ راستے میں جو آے سب توڑ دیں۔ کراچی تباہ کر دیا، قبرستان تک غائب کر دئیے ، ایسے ہی احکامات ریلوے محکمہ اوقاف اور متروکہ وقف املاک بورڈ کی جائیدادوں اور اراضی کے لئے جاری ہونے چاہئیں۔ لاہور میں قبرستانوں کی حالت درد ناک ہے۔ پراپرٹی ٹیکس میں 30 فیصد تک اضافے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اہم ترین خبر یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں بچوں سے زیادتی کے مجرموں کوسرِعام پھانسی دینے کی قرارداد منظور ہوئی ہے اب آئی ایم ایف کی طرح ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی ہمارے اندرونی معاملات میں ٹانگ اڑانے لگی پہلے ہم FATF کے تقاضے پورے کرنے میں مصروف رہے ۔ ایمنسٹی نے بچوں سے جنسی تشدد پر سرعام پھانسی پر اظہار تشویش کیا ہے اسے مقبوضہ کشمیر میانمار میں مسلمانوں پر روا دہشت اور وحشت کیوں دکھائی نہیں دیتی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38