لاہور بار ایسوسی ایشن کے سالانہ انتخابات کے بعد اب محمد آصف چیمہ صدر اور ملک مقصود کھوکھر جنرل سیکرٹری کے طور پر ذمہ داریاں سنبھال چکے ہیں۔ ان کی باقی ٹیم بھی بہت متحرک ہے۔ ایشیاء کی سب سے بڑی بار کا اعزاز رکھنے والی لاہور بار کے عہدیدار کی حیثیت سے کام کرنا بہت بڑا اعزاز بھی ہے۔ لیکن آٹھ ہزار سے زائد وکلاء جن میں ایک ہزار سے زائد لیڈی وکلاء شامل ہیں‘ کی نمائندگی کرتے ہوئے مختلف مسائل کا سامنا کرنا اور تمام وکلاء اور انصاف کے سارے فریقین کو مطمئن کرنا اتنا ہی مشکل کام بھی ہے۔ گزشتہ روز سنیئر وکلاء ظفر علی راجا‘ نذیر احمد جاوید اور ڈوگر صاحب سے لاہور بار کی ایل ڈی اے ونگ ‘ مسجد ونگ اور پھر جوڈیشل کمپلکس میں آمنا سامنا ہوا۔ بہت سی باتیں ہوئیں۔ بہت سے بدلتے مناظر دیکھے۔ ایک بات کا خاص طور پر شدت سے احساس ہوا کہ ماضی میں مختلف عہدیداروں کے ہوتے ہوئے ان عدالتی عمارات کے اندر خاص طور پر ایل ڈی اے پلازہ سے ملحقہ خالی جگہ کا کیا حشر نشر ہوا ہے۔ جہاں جہاں خالی جگہ نظر آتی ہے وہاں کسی گئے گزرے بازار کی صورت پیدا کر دی گئی ہے۔ دکانیں کھوکھے ایسا منظر پیش کررہے ہیں کہ جیسے قانون کی عملداری کے ان مراکز کے اندر قانون نام کی کوئی چیز نہ ہو۔ اسی طرح جوڈیشل کمپلکس میں وکلاء کیلئے بنائے گئے چیمبرز کی الاٹمنٹ کی درخواستیں دھری کی دھری رہ گئیں اور جن کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق قبضہ گروپ کی سوچ حاوی ہونے لگی تو پھر پنجاب بار اور پاکستان بار کو مداخلت کرنا پڑی۔ ماضی میں وکلاء پہلے خود قانون پر عمل کرتے تھے اور پھر ہر طرح کے ملکی حالات کو قانون کے دائرے میں لانے کیلئے جدوجہد کرتے تھے۔ بینچ اور بار کا تصور ہی بنیادی طور پر قانون کی عملداری کیلئے ہے۔ مگر کچھ عرصہ سے معاشرے میں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ قانون کے رکھوالے ہی سب سے زیادہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی راہ پر چل رہے ہیں۔ گزشتہ روز لیڈی ایڈیشنل جج کے آفس کی تالہ بندی اس کی ایک مثال ہے۔
وکلاء کی تمام تنظیموں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ معاشرے میں پھیلتی اس سوچ کو ختم کرنے کیلئے آگے آئیں۔ نئے آنے والے عہدیداروں پر اس حوالے سے بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اگر کسی طرح کا انتخاب جیتنے کے بعد فائرنگ کرنا عام لوگوں کیلئے منع ہے‘ خلاف قانون ہے تو بار ایسوسی ایشنوں کے انتخابات جیتنے پر اس کا مظاہرہ کیسے درست تسلیم کیا جائے۔ کیا ترقی یافتہ معاشروں میں ایسا ہوتا ہے۔ ؟؟ یہ طاقت کا منفی رخ ہے۔ اسی انداز کے خاتمے کیلئے اور قانون کی حکمرانی کیلئے تو کالا کوٹ پہن کر وکلاء دوسروں سے الگ نظر آتے ہیں۔ لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر محمد آصف چیمہ‘ ملک منصور کھوکھر‘ راجہ نعمان اور تمام دوسرے عہدیداروں نے اپنے ووٹروں سے کئی وعدے کر رکھے ہیں ‘ انہیں اپنی بار سے ارکان کے مسائل حل کرنے کا مینڈیٹ ملا ہے۔ انہیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ان کے دور میں وکلاء کے ساتھ ساتھ بینچ یعنی معزز جج صاحبان کو قانون کی حکمرانی کیلئے کیسا ماحول مل رہا ہے۔ انہیں دیکھنا ہوگا کہ انصاف کی عملداری کے ایک سے بڑے فریق یعنی سائلوں کے بیٹھنے کیلئے بھی کوئی جگہ ہے۔ عدالتوں میں یہ مظلوم طبقہ رل گیا ہے۔ کوئی نہیں دیکھتا کہ مسائل خاص طور پر خواتین اور بچے عدالت میں پیشی سے پہلے کھڑے کھڑے عذاب میں مبتلا رہتے ہیں۔ نئے عہدیداروں کو بینج بار اور سائلوں کے تحفظ کے اقدامات کو اور بہتر بنانے کی جدوجد کرنا ہوگی۔ پارکنگ اس وقت بھی لاہور بار کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور ان باتوں سے بڑھ کر لاہور بار کے تمام وکلاء کو قانون کی حکمرانی کیلئے سب سے پہلے خود مثال بننا ہوگا۔ یہی بار کے نئے عہدیداروں کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024