چیف جسٹس آف پاکستان نے صاف پانی کیس میں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کوکل11 بجے ذاتی حیثیت سے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں طلب کرلیا۔ لاہور کے تمام سرکاری اسپتالوں کے ایم ایس کو مسائل کی رپورٹ 24 فروری تک عدالت میں پیش کر نے کا حکم دے دیا۔ ریاست کو اپنے ملازمین کیلئے مالک نہیں بننا بلکہ کفالت کرنی ہے۔ چیف سیکرٹری بتائیں کہ کیا آپ 45 ہزار روپے ماہانہ میں گزارا کر سکتے ہیں۔ فاضل عدالت نے برائلر مرغیوں کو دی جانے والی خوراک اور گوشت کے نمونوں کا ٹیسٹ کروانے کا بھی حکم دیدیا۔چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مختلف ازخود نوٹسز میں سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے صاف پانی کیس کی سماعت کا آغاز کیا توایڈووکیٹ عائشہ حامد نے رپورٹ جمع کروائی۔ جس میں انکشاف کیاگیاکہ دریائے راوی میں لاہور کا 540 ملین گیلن گندا پانی پھینکا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لاہور تو پنجاب کا دل ہے۔ دل میں کیا پھینکا جا رہا ہے۔ حیرانگی کی بات ہے لاہورکی یہ صورتحال ہے توباقی شہروں کا کیا حال ہوگا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثارنے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو اس بارے کئے گئے اقدامات کی وضاحت کےلئے فوری طور پرپیش ہونےکا حکم دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگرسندھ کا وزیراعلیٰ عدالت پیش ہو سکتا ہے تو پنجاب کا کیوں نہیں۔ چیف سیکرٹری پنجاب نے پیش ہو کر بتایاکہ وزیراعلیٰ پنجاب مصروفیات کے باعث آج پیش نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے استدعا کی کہ عدالت پیش ہونے کےلئے وقت دے۔ فاضل عدالت نے قرار دیا کہ اچھا ہوتا اگر وزیراعلیٰ آج پیش ہوتے۔ یہ تخت لاہور ہے یہاں کیا ہو رہا ہے۔ عدالت نے پنجاب حکومت کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ابھی تک راوی پر فلٹریشن پلانٹ ہی نہیں لگایا گیا۔ مستقبل میں اگر اس منصوبے پر عمل ہو گا تو ماضی میں اس پر عمل درآمد نہ کرنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے اس کا تعین عدالت کریگی۔ فاضل عدالت نے استدعا منظور اور صاف پانی کیس کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کوکل دن 11 بجے پیش ہونےکا حکم دیدیا ہے۔ جبکہ عدالت نے چیف سیکرٹری کو حکم دیاکہ صاف پانی سے متعلق سات روز میں رپورٹ جمع کروائیں۔ سپریم کورٹ میں پرائیویٹ میڈیکل کالجز میں زائد فیسوں کی وصولی کیخلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت میں ینگ ڈاکٹرز کی سہولیات اور تنخواہوں سے متعلق شکایات کی رپورٹ طلب کر لی۔ ینگ ڈاکٹرز کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ ینگ ڈاکٹرز کو 45 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ ادا کیا جاتا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 5 سال میں ایک میڈیکل کا طالب علم اپنی آنکھیں سوجا کر آتا ہے اور اسے معاوضہ نہ ہونے کے برابر دیا جاتا ہے، جب ہمارے معاشرے کے پڑھے لکھے طبقے کو اہمیت نہیں دی جائے گی تو وہ کہاں جائیں گے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر ڈاکٹر کو موقع مل جائے تو وہ یورپ یا امریکہ چلا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ان کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہے انہیں علم ہے کہ مسائل کیا ہیں۔ انہوں نے ینگ ڈاکٹرز کو ہدایت کی کہ وہ اپنی شکایات تحریری طور پر دیں، رپورٹ کو آرٹیکل 190، 5، 204 کے تحت ریاست کی ذمہ داریوں کے پیرائے میں پرکھا جائے گا۔ سپریم کورٹ کے حکم کو نہیں مانا جائے گا تو پھر ہم چپ نہیں بیٹھیں گے۔ چیف جسٹس نے ڈاکٹر عاصم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے بھاگنا نہیں ہے۔ انہیں چھوڑ کر نہیں جانا۔ آپ ہمارے لئے بہت اہم ہیں۔ چیف جسٹس نے ینگ ڈاکٹرز کی سہولیات اور تنخواہوں کی شکایات سے متعلق بھی رپورٹ طلب کر لی۔ دریں اثناءعدالت عظمیٰ کے فاضل بنچ نے سرکاری ہسپتالوں کی ناقص صورتحال کے خلاف ازخود نوٹسز کی بھی سماعت کی۔ عدالتی حکم پر لاہور کے تمام ہسپتالوں کے ایم ایس عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے لاہور کے تمام سرکاری ہسپتالوں کے ایم ایس سے مسائل کی رپورٹ 24 فروری تک طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ جس جذبے سے سپریم کورٹ نے ان معاملات کو دیکھا، اسی جذبے سے آپ کو بھی کام کرنا ہو گا۔ وہ ہسپتال جس کو میں نے اپنے بچپن اورجوانی میں دیکھا اس کی حالت بھی بہتر کرنا چاہتا ہوں، تمام سرکاری ہسپتالوں میں مجھے بہت اعلیٰ قسم کی ایمرجنسی چاہیں۔ ہم سب نے مل کر ایک بہتر نظام تیار کرنا ہے۔ ایم ایس سروسز ہسپتال نے بتایا کہ سروسز ہسپتال میں پہلے 400 بیڈز تھے جنہیں بڑھا کر 614 کر دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ میو ہسپتال کا جب سے دورہ کیا ہے تب سے دل پر بوجھ لے کے پھر رہا ہوں، مجھے کسی تنقید کی پرواہ نہیں۔ میو ہسپتال دوبارہ جاؤں گا۔ معیاری سٹنٹ کی قیمتوں میں کمی کر کے ڈائیلسز کے شعبے میں اقدامات کرینگے۔ طاقت کے مظاہرے کے لئے نہیں، ذمہ داری کے لئے اقدامات کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر اپنے کلینکس پر چار گھنٹے دیتے ہیں تو دو گھنٹے کر دیں۔ کوئی جتنی مرضی تنقید کرے کوئی پرواہ نہیں۔ عدالت نے سیکرٹری پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کو تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چیف سیکرٹری صاحب ڈاکٹروں کا سروس سٹرکچر کیوں نہیں بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ عوام کی خدمت تمام اداروں کی آئینی ذمہ داری ہے۔ عدلیہ اپنی ذمہ داری پوری کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے لاہور میں شاہرا¶ں پر قائم رکاوٹوں پر لئے گئے از خود نوٹس پر رپورٹ طلب کر لی۔ گزشتہ روز سماعت کا آغاز ہوا تو فاضل عدالت نے آئی جی پنجاب کو حکم دیا کہ شہر میں قائم رکاوٹوں کے بارے میں دو گھنٹے میں رپورٹ پیش کی جائے۔ فاضل عدالت نے کہا کہ کینٹ اور ماڈل ٹا¶ن میں بھی قائم رکاوٹوں کے بارے میں بتایا جائے۔ دو گھنٹے بعد پولیس کی طرف سے رپورٹ پیش کی گئی۔ فاضل عدالت کے استفسار پر آئی جی نے بتایا کہ سکیورٹی کے حوالے سے کچھ جگہوں پر رکاوٹیں لگائی گئی ہیں۔ فاضل عدالت نے قرار دیا کہ شہریوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ جس کو سکیورٹی کا مسئلہ ہے اس کیلئے جو مرضی اقدامات کریں تاہم شہریوں کیلئے مسائل پیدا نہیں ہونے چاہیں۔ عدالتی استفسار پر بتایا گیا کہ 180 ایچ ماڈل ٹا¶ن وزیر اعلیٰ کا کیمپ آفس ہے جبکہ 96 ایچ رہائش گاہ ہے۔ فاضل عدالت نے تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت آج تک ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس نے کہا چیف سیکرٹری صاحب ڈاکٹروں کا سروس سٹرکچر کیوں نہیں بنایا گیا؟ ڈاکٹرز جتنی تنخواہ لے رہے ہیں اتنی تو سپریم کورٹ کے ڈرائیور کی ہے۔ ڈاکٹر راتوں کو جاگ کر پڑھتے اور ڈگری حاصل کرتے ہیں مگر تنخواہ کیا دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ عدالت اپنے دائرہ اختیار سے آگے نہیں جائیگی۔ ہم تو صرف آئین اور قانون پر عملدرآمد کرا رہے ہیں۔ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد نہ کرنیوالے نتائج بھگتیں گے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024