توہین رسالت قانون میں کوئی تبدیلی نہیں ہورہی، فنکشنل کمیٹی
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے اعلان کیا ہے کہ توہین رسالت کی سزا کے قانون میں کسی قسم کی تبدیلی ہو گی اور نہ ہی کمیٹی اس معاملہ پر کسی قسم کی ورکنگ کر رہی ہے بل کو موخر کر دیا گیا۔ مخنث کی شناخت کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی منظوری دیدی گئی ہے جس کے تحت والدین شناخت سے آگاہ کر سکتے ہیںاگر ایسا نہیں ہوتا تو مخنث خود اپنی شناخت کا اعلان کر سکتا ہے چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل قبلہ ایاز نے کہا کہ اگر شناخت کے لئے ہم خواجہ سراؤں کو ہسپتال اور تھانوں کے حوالے کرتے ہیں تو مزید مسائل پیدا ہوں گے۔ خواجہ سراؤں کے نمائندوں نے بتایا کہ ہمارا مزید استحصال ہو گا۔ ہمیں پولیس اور ڈاکٹروں کے حوالے نہ کیا جائے۔ جمعہ کو کمیٹی کا اجلاس چیئرپرسن سینیٹر نسرین جلیل کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جس میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کے مسودہ قانون پر غور کیا گیا۔ اس بارے میں تمام بلوں کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ کمیٹی نے لاپتہ افراد کے قومی کمیشن کے نئے چیئرمین کی تقرری کا مطالبہ کر دیا۔ کمیٹی نے واضح کیا ہے کہ ضابطہ کار کے باوجود کمیشن اپنی رپورٹ جاری نہیں کر سکا۔ ایک فرد دو ادارے نہیں چلا سکتا، فوری طور پر قومی کمیشن برائے لاپتہ افراد کی تشکیل نو کی جائے۔ کمیٹی نے لاپتہ افراد کے معاملے پر بھی سفارشات کا اعلان کر دیا خفیہ اداروں کی ورکنگ کے بارے میں مجوزہ قانون کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے جواب نہ آنے کا نوٹس لے لیا چیئرمین سینیٹ کو اس بارے میں آگاہ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ قانون پر عملدرآمد کے طریقہ کار کے حوالے سے تجاویز آئی تھیں۔ سینیٹر مفتی عبدالستار نے کہا کہ پاکستان میں دیگر جرائم کے قوانین کا غلط استعمال ہوتا ہے۔ اصل مسئلہ کچھ اور ہے جبکہ یہاں حساس قانون کو تبدیل کرنے کی بات کی جاتی ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ مفتی عبدالستار کے احتجاج پر فنکشنل کمیٹی نے بل پر غور موخر کر دیا۔ فنکشنل کمیٹی نے واضح کیا ہے کہ کوئی وردی میں ہو یا وردی کے بغیر پاکستان کے کسی شہری کو لاپتہ نہیں کر سکتا۔ طاقت اور بندوق کے زور پر جبر کیا جائے گا تو ایسا جنگل کے قانون میں ہوتا ہے۔ کسی ایجنسی، کسی اتھارٹی کو آئین و قانون کے ماورا شہریوں کو لاپتہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ تمام ادارے شہریوں کے تحفظ اور حقوق کے ذمہ دار ہیں نہ کہ انہیں لاپتہ کریں۔ کوئی شہری چاہے غداری جیسے سنگین جرم میں ملوث ہو۔ اداروں کا کام ہے کہ اگر اس کے پاس کوئی ثبوت یا شواہد ہیں تو آئین و قانون کا احترام کرتے ہوئے اس کو عدالت میں پیش کریں۔ کسی کو جبر کی بنیاد پر اٹھانا قانون سے انحراف ہے۔ ایسے قانون کی حکمرانی کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ چیئرپرسن نسرین جلیل نے بتایا کہ پاکستان سے لاپتہ افراد کے معاملے کا اقوام متحدہ نے نوٹس لیا تھا اور کچھ کیسز تحقیقات کے لئے لاپتہ افراد کے قومی کمیشن کے حوالے کئے تھے قومی کمیشن نے انہیں برآمد کرایا تھا۔ کمیٹی اراکین نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ جس بھی علاقے میں کوئی شہری لاپتہ ہوتا ہے یا کسی کی مسخ شدہ لاش ملتی ہے تو متعلقہ ایس پی اور ڈی ایس پی کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔