وزارت قانون توہین رسالت کے غلط استعمال کی سزا تجویز کرے، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل
اسلام آباد(اے این این) پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز نے کہا ہے کہ پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال ہورہا ہے جس کی وجہ معاشرے میں جذباتیت کا پیدا ہونا ہے، محکمہ قانون اس قانون کے غلط استعمال کی سزا تجویز کرے، بیک وقت تین طلاقوں کو قابلِ سزا جرم قرار دیا جائے گا۔ برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میںانھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں سفارشات تیار کر لی گئی ہیں جو جلد ہی پارلیمان میں پیش کر دی جائیں گی۔ بل تیار کر رہے ہیں جو وزارت قانون کو بھیجا جائے گا اور وہ اس پر سزا تجویز کرے گی۔ بیک وقت تین طلاقوں کی ممانعت کی جائے گی اور یہ قابلِ سزا جرم ہو گا۔ بیک وقت تین طلاقیں دینے کی صورت میں طلاق تو ہو جائے گی تاہم اس سلسلے میں حتمی فیصلہ عدالت میں قاضی کرے گا۔ قبلہ ایاز نے کہا کہ بد قسمتی سے یہ تاثر پھیل گیا ہے کہ ہم نے صرف خواتین کو ہی موضوعِ بحث بنایا ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے معیشت، تعلیم اور ابلاغِ عامہ کے حوالے سے بہت کام کیا ہے۔ قبلہ ایاز نے مولانا شیرانی کے متنازع بیانات کو ان کی ذاتی رائے قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ خواتین معاشی سرگرمیوں کا فعال حصہ ہیں اور عفت اورحیا کے دائرے کے اندر ان کے معاشی سرگرمیوں کا حصہ بننے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ڈی این اے کو حتمی ثبوت کے طور پر پیش کرنے کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں سائنسی ماہرین اور فقہا سے مشورہ کیا جائے گا۔ پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال سے متعلق ایک سوال کے جواب میں قبلہ ایاز کا کہنا تھا کہ انھوں نے محکمہ قانون کو ہدایت جاری کی ہے کہ اس قانون کے غلط استعمال کی سزا تجویز کی جائے، بد قسمتی ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے جس کی وجہ معاشرے میں جذباتیت کا پیدا ہونا ہے، نصاب اور میڈیا میں جذباتی میلانات کو کم کرنے کی کوشش ہونی چاہیے جبکہ قانونی طور اس کی مثالی سزا ہونی چاہیے۔ لیکن اس قانون میں تبدیلی کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ یہ قومی اور جذباتی منظرنامے کا حصہ بن گیا ہے، اس میں تبدیلی کی صورت میں ردعمل کے لیے حکومت بھی تیار نہیں، لیکن تمام تحفظات اس کے غلط استعمال کے حوالے سے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان کی جانب سے سامنے آنے والے نئے قومی بیانیے میں ایک فتوے کے مطابق ریاست مخالف تمام تحریکوں، گروہوں اور کارروائیوں کو غیر اسلامی قرار دیا گیا ہے۔قبلہ ایاز کہتے ہیںکہ افغانستان بھی اس فتوے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ افغان طالبان کے لیے بھی ہمارا مشورہ ہے کہ یہ گوریلا اور مسلح جنگیں 21صدی میں نہیں چلتیں۔ انھوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ پاکستان کے اندر یا باہر کوئی بھی گروہ اگر افغانستان میں حکومت یا ریاست کے خلاف کارروائی کرے گا تو وہ بھی غیر اسلامی ہو گی لیکن یہ بھی یقینی بنانا ہو گا کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی اور دونوں جانب سے سرحدوں کا تحفظ کیا جائے گا۔