انٹیلی جنس شیئرنگ کی بنیاد پر پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعاون سے ہی دہشتگردی کی جنگ جیتنا ممکن ہوگا
امریکہ کا پاکستان کی عسکری امداد روک کر دبائو ڈالنے کے حربے میں ناکام ہونے کا اعتراف اور امریکی و یورپی حکام کی پاکستان آمد
امریکی محکمہ خارجہ نے کانگرس کے سامنے اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کی عسکری امداد روک کر دبائو ڈالنے کا حربہ بری طرح شکست سے دوچار ہوا ہے اور اسلام آباد تاحال اپنی پالیسی پر ہی عمل پیرا ہے۔ اس سلسلہ میں سینٹ فارن ریلیشن کمیٹی کے روبرو امریکی حکام اور پارلیمانی وفد نے امریکہ کی نئی جنوبی ایشیاء پالیسی سے متعلق حکمت عملی کے بارے میں اعتراف کیا کہ اسلام آباد کے بغیر افغانستان میں امن کا قیام ناممکن ہے۔ کمیٹی کے ری پبلکن چیئرمین سینیٹر رابرٹ کروکر نے پاکستان کی عسکری امداد روکنے کے فیصلہ کی بھرپور تائید کی اور کہا کہ جب تک اسلام آباد حقانی نیٹ ورک اور دیگر دہشت گردوں کو پناہ فراہم کرتا رہے گا‘ اس وقت تک اس کیلئے اربوں ڈالر کی عسکری امداد پر پابندی ہوگی۔ انکے بقول یہ ایک واضح لکیر ہے۔ دوسری جانب کمیٹی میں موجود سینیٹر بین کارڈن نے استفسار کیا کہ پاکستان کی عسکری امداد روکنے سے آیا کوئی تبدیلی آئی جس پر نائب وزیر خارجہ جان سیلوان نے جواب دیا کہ یقیناً پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اس لئے ہم اسے حتمی اور ناقابل تنسیخ سمجھیں گے۔ ایک سینیٹر نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ پاکستان کی جانب سے مذاکرات کئے گئے تاہم تاحال حقانی نیٹ ورک کیخلاف قابل ستائش اقدامات نہیں اٹھائے گئے اس لئے پاکستان کی عسکری امداد سے پابندی ختم کرنا ممکن نہیں۔ کمیٹی کے روبرو سیکرٹری سٹیٹ سینیٹر جان سیلوان نے کہا کہ پاکستان بخوبی ہماری ترجیحات سمجھتا ہے اور عسکری امداد پر پابندی کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کیخلاف ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جائیگا۔ جان سیلوان کے بقول امریکہ دنیا بھر میں پراکسی وار کا مخالف ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ امریکہ کی طرف سے نیٹو فورسز کے ذریعے افغانستان میں شروع کی گئی دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ ہماری جنگ ہرگز نہیں تھی۔ امریکہ نے اس جنگ میں اپنے متعینہ اہداف پورے کرنے کیلئے پاکستان کے اس وقت کے جرنیلی آمر پرویز مشرف کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنایا جس کے تحت پاکستان نے نیٹو فورسز کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کی اور انکے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ کا راستہ نکالا۔ لاجسٹک سپورٹ کی مد میں پاکستان نے اپنے تین ایئربیسز امریکہ کے حوالے کردیئے جبکہ افغانستان میں تعینات نیٹو فورسز کو پاکستان کی راہداری سے اسلحہ‘ جنگی سازوسامان‘ خوراک اور ادویات پہنچائی جانے لگیں۔ پاکستان کی اس لاجسٹک سپورٹ کے عوض ہی اسے کولیشن سپورٹ فنڈ سے 35, 30‘ ارب ڈالر ادا کرنا طے ہوئے اور انکی قسطوں میں ادائیگی کا شیڈول مرتب کرلیا گیا۔ اس تناظر میں پاکستان کو ملنے والی یہ رقم اسکی عسکری امداد کے زمرے میں ہرگز نہیں آتی بلکہ یہ پاکستان کی جانب سے نیٹو فورسز کو فراہم کی جانیوالی خدمات کا معاوضہ تھا مگر امریکہ نے اس رقم کی قسط وار ادائیگی کو بھی مختلف شرائط کے ساتھ باندھ دیا اور افغان جنگ میں ڈومور کے تقاضے شروع کردیئے گئے جبکہ اب تک پاکستان کو بمشکل 18‘ ارب ڈالر ہی ادا کئے گئے ہیں۔ اگر پاکستان نیٹو فورسز کو لاجسٹک سپورٹ فراہم نہ کرتا تو فطرتاً جنگجو افغان باشندوں کے ہاتھوں افغان سرزمین کب کی نیٹو فورسز کے قبرستان میں تبدیل ہوچکی ہوتی اور انہیں اپنی بارہ چودہ سال کی مہم جوئی میں افغان سرزمین سے بچ نکلنے کی بھی مہلت نہ ملتی۔
دوسری جانب پاکستان کو افغان جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی بننے کا بھاری جانی اور مالی نقصانات کی صورت میں خمیازہ بھگتنا پڑا۔ پاکستان کے اس کردار کی وجہ سے ہی اسکے لاکھوں بے گناہ شہری اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار و افسران خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کی زد میں آئے۔ ان میں 70 ہزار کے قریب شہریوں اور دس ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکاروں کی جانیں ضائع ہوئیں اور ہزاروں زخمی ہو کر مستقل اپاہج زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں جبکہ ملکی معیشت کو دو سو ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ ان جانی اور مالی نقصانات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ پاکستان کے ان نقصانات کی تفصیلات امریکی پینٹاگون اور دفتر خارجہ میں موجود ہیں جو امریکہ سے پاکستان کا مشکور ہونے کی متقاضی ہیں مگر امریکہ کی سابقہ اور موجودہ انتظامیہ کی جانب سے نہ صرف پاکستان کے کردار پر اعتماد نہ کیا گیا بلکہ پاکستان کے اندر ڈرون حملوں اور دوسری زمینی اور فضائی کارروائیوں کا بھی آغاز کردیا گیا جس سے پاکستان کی خودمختاری بھی مجروح ہوئی۔ افغان جنگ میں پاکستان کے اس بے لوث کردار کا پورا زمانہ معترف ہے اور چین‘ برطانیہ‘ ترکی اور دوسرے ممالک کی جانب سے مختلف علاقائی اور عالمی فورموں پر پاکستان کے کردار کی ستائش کی جاتی رہی ہے۔ گزشتہ روز بھی پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے یورپی ملٹری کمیٹی کے چیئرمین میخائل کوسترا کور نے وزیر دفاع خرم دستگیر اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے الگ الگ ملاقاتوں کے دوران اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں ہے۔ خود امریکی حکام بھی دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے کردار کی گاہے بگاہے ستائش کرتے رہے ہیں تاہم ری پبلکن ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی حیران کن حد تک یکسر تبدیل ہوگئی اور صدر ٹرمپ نے خود پاکستان کے بارے میں سخت اور دھمکی آمیز لب و لہجہ اختیار کرلیا۔ انہوں نے اپنی نئی افغان پالیسی کے اجراء سے سٹیٹ آف دی یونین خطاب تک پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جن کی تقلید میں امریکی نائب صدر پنس‘ وزیر دفاع‘ وزیر خارجہ اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی تک پاکستان کا ناطقہ تنگ کرنے کے سخت پیغام دیتے نظر آئے اور پھر پاکستان کی فوجی امداد معطل کرنے کا امریکی کانگرس کی ایک قرارداد کی بنیاد پر اقدام اٹھا لیاگیا۔ اب امریکی ایوان نمائندگان میں پاکستان کی سول امداد میں کٹوتی کی قرارداد بھی لائی جاچکی ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ جو جنگ سرے سے پاکستان کی جنگ تھی ہی نہیں‘ اس میں پاکستان کے کردار کے ردعمل میں ملک میں دہشت گردی کا ناسور پھیلنے سے یہی جنگ مجبوراً پاکستان کی اپنی جنگ بن گئی اور ملک کی سرزمین کو دہشت گردی کے ناسور سے مکمل خلاصی دلانے کا چیلنج پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے قبول کیا جس کے تحت پہلے جنوبی وزیرستان‘ پھر شمالی وزیرستان اور پھر ملک بھر میں دہشت گردوں کیخلاف اپریشن شروع کئے گئے۔ ملک بھر میں اپریشن ردالفساد‘ کومبنگ اپریشن اور اپریشن خیبرفور اس وقت بھی جاری ہیں جس میں ہماری سکیورٹی فورسز نے نمایاں کامیابیاں حاصل کرکے دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے تباہ کئے ہیں۔ اسکے باوجود واشنگٹن انتظامیہ کی جانب سے آج بھی پاکستان سے ڈومور کے تقاضوں کا سلسلہ جاری ہے جس کی صدائے بازگشت گزشتہ روز امریکی کانگرس کی متعلقہ کمیٹی میں بھی سنی گئی ہے۔ افغان جنگ کے حوالے سے پاکستان اور امریکہ کے مابین انٹیلی جنس شیئرنگ کا معاہدہ بھی موجود ہے جس کے تحت پاکستان امریکہ سے اس امر کا متقاضی ہوتا ہے کہ پاکستان کے اندر حقانی نیٹ ورک یا دوسری دہشت گرد تنظیموں کے کوئی ٹھکانے موجود ہیں جن کی اطلاع امریکہ کے پاس ہے تو اس سے پاکستان کو آگاہ کیا جائے تاکہ اسکی سکیورٹی فورسز خود ان ٹھکانوں پر اپریشن کرسکیں مگر امریکہ کی جانب سے اسکے باوجود پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملوں کا سلسلہ برقرار رکھا گیا ہے اور گزشتہ روز بھی شمالی وزیرستان میں پاک افغان سرحد پر امریکی ڈرون نے میزائل حملہ کیا ہے جس میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے نائب امیر سجنا محسود سمیت دو دہشت گردوں کے مارے جانے کی اطلاع ہے۔ ممکنہ طور پر یہ ڈرون حملہ پاکستان کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ کی بنیاد پر کیا گیا ہوگا جس میں امریکہ کو اصل ہدف تک پہنچنے میں آسانی ہوئی۔ اگر انٹیلی جنس شیئرنگ ہی کی بنیاد پر امریکہ اور افغان فورسز افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں پر اپریشن کریں اور اسی طرح پاکستان کی فورسز اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں پر انکی سرکوبی کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ اس خطے کو دہشت گردی کے ناسور سے مکمل پاک نہ کیا جا سکے اور افغان جنگ جیتی نہ جاسکے۔
اگر امریکہ پاکستان کی فوجی اور سول امداد پر قدغنیں لگاتا یا اس میں کٹوتی کرتا ہے اور ساتھ ہی اسے سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیتا ہے تو پاکستان کے اس جنگ سے باہر نکلنے کا سارا نقصان امریکہ کو ہی اٹھانا پڑیگا۔ یقیناً اب واشنگٹن اور پینٹاگون کو بھی اس حقیقت کا احساس و ادراک ہورہا ہے جبکہ بیرونی دنیا دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے مؤثر کردار کا اعتراف کرکے بھی امریکہ کو آئینہ دکھا رہی ہے۔ چنانچہ اب پاکستان کے بارے میں امریکی سخت پالیسی میں نرمی کی گنجائش نکلتی نظر آرہی ہے۔ گزشتہ روز امریکہ نے افغان سرزمین پر بھی فضائی حملہ کیا جس میں حقانی نیٹ ورک کے تین کارکن مارے گئے ہیں تو اس سے پاکستان کے موقف کی ہی تصدیق ہوئی ہے کہ دہشت گردوں کے تمام گروپوں بشمول حقانی نیٹ ورک کے محفوظ ٹھکانے افغان سرزمین پر ہی موجود ہیں جہاں سے پاکستان کے اندر بھی دہشت گردوں کی معاونت کی جارہی ہے۔ امریکی حکام اس حقیقت کو جلد تسلیم کرکے اپنی کارروائیوں کیلئے افغان سرزمین کو فوکس کرلیتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ کو مضبوط بنایا جاتا ہے تو اس سے نہ صرف پاکستان امریکہ اعتماد سازی کی بحالی میں مدد مل سکتی ہے بلکہ افغان جنگ جیتنے کی راہ بھی ہموار ہوسکتی ہے جس میں اب تک ناکامی کے سوا اور کچھ امریکہ کے ہاتھ نہیں آیا۔ اب سول اور عسکری سطح پر مذاکرات کیلئے امریکہ نے پاکستان کے ساتھ سلسلہ جنبانی شروع کیا ہے جس کیلئے امریکی حکام گزشتہ روز بھی اسلام آباد آئے ہیں تو اس سے پاکستان امریکہ تعلقات کے معمول پر آنے کی بھی توقع کی جا سکتی ہے۔ ان دونوں ممالک کو دہشت گردی کی جنگ اکٹھے لڑ کر ہی ممکنہ کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔