لاہور ہائی کورٹ میں پرائیویٹ سکولوں کی فیسوں میں اضافے کیخلاف دائر درخواست پر جسٹس شاہد جمیل خان نے قرار دیا ہے کہ یہ انتہائی اہم نوعیت کا معاملہ ہے‘ والدین پریشان ہیں او رمحکمہ (تعلیم) کاغذی کارروائی میں مصروف ہے۔ افسر اپنا کام ٹھیک طریقے سے نہیں کر رہے۔ عدالت نے محکمہ تعلیم کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے سیکرٹری سکولز کو طلب کر لیا۔
پرائیویٹ سکولوں کی فیسوں میں من مانا اضافہ والدین اور خصوصاً نچلے طبقوں کے والدین کیلئے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ پرائیویٹ سکولز مالکان نے تعلیم کو مشن کے بجائے کاروبار بنا رکھا ہے۔ آئے روز فیسوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے یا غیرنصابی سرگرمیوں کے نام پر والدین سے پیسے بٹورے جاتے ہیں۔ اسکے علاوہ کتابوں اور کاپیوں سمیت دیگر سٹیشنری بھی والدین انہی سکولوں سے خریدنے کے پابند ہیں۔ محکمہ کی طرف سے چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے باعث پرائیویٹ سکولز مالکان کی من مانیاں عروج پر ہیں۔ اگر سرکاری سکولوں میں معیاری تعلیم دی جا رہی ہوتی تو پرائیویٹ سکولوں کا کون رخ کرتا۔ سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی موجودگی کا اکثر یہ عالم ہے کہ حاضری لگا کر غائب ہو جاتے ہیں جو حاضر ہوتے ہیں وہ بھی پڑھانے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ اگر سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی میرٹ پر بھرتی ہو تو ان کا معیار بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ کئی سرکاری سکولوں کے اساتذہ افسران کی ملی بھگت سے پرائیویٹ سکولوں میں دیہاڑی لگا رہے ہوتے ہیں۔ ایسے اساتذہ کا سخت محاسبہ ہونا چاہیے۔ اسی طرح سرکاری سکولوں میں پڑھائی کا معیار پرائیویٹ درسگاہوں کے برابر لایا جا سکتا ہے جبکہ محکمہ تعلیم کا قبلہ درست کرنے کیلئے سیکرٹری تعلیم سے ادنیٰ کلرک تک سب پر پابندی لگا دی جائے کہ انکے بچے لازماً سرکاری سکولوں میں ہی پڑھیں گے۔ دیکھتے ہیں کیسے سدھار نہیں آتا!
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024